Feb ۰۷, ۲۰۱۷ ۲۲:۳۵ Asia/Tehran
  • عظیم رہبر کی قیادت میں عظیم انقلاب

تحریر : ڈاکٹر آر نقوی

ایران کا اسلامی انقلاب ایک عظیم ، باشکوہ اور موثر تحریک ہے۔ جیساکہ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سیدعلی خامنہ ای نے فرمایا ہےکہ " دنیا کے کسی بھی علاقے میں اس انقلاب کو امام خمنی رح کے نام کے بغیر پہچانا نہیں جاتا ہے۔"

حقیقت بھی یہی ہے کہ ایرانی قوم کی عظیم تحریک کی رہنمائی کے سلسلے میں امام خمینی رح کا کردار اس قدر واضح تھا کہ امام خمینی رح کی دانشمندانہ اور مستقبل کو مد نظر رکھ کر دی جانے والی ہدایات کے بغیر اس تحریک کی کامیابی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ امام خمینی رح سے متعلق واقعات تاریخ میں انقلابی واقعات کے ایک اہم حصے کے طور پر درج ہیں۔ خصوصا سنہ انیس سو چونسٹھ میں آپ کی گرفتاری اور جلاوطنی اور اسی طرح یکم فروری سنہ انیس سو اناسی میں اس عظیم عوامی اور روشن خیال رہنما کی وطن واپسی جیسے واقعات۔ وطن واپسی کے دس دنوں کے بعد یعنی گیارہ فروری کو اسلامی انقلاب کی کامیابی کے سلسلے میں امام خمینی رح کی وطن واپسی نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ 

 آج اسلامی انقلاب کی کامیابی کو سینتیس برس کا عرصہ گزر جانے کے بعد واضح ہوا ہےکہ یہ عظیم انقلاب دنیا میں عصر حاضر کا سب سے زیادہ موثر واقعہ تھا جو نہ صرف زوال کا شکار نہیں ہوا بلکہ اس کے نور کا دائرہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ بنابریں کوئي ایسا رہنما ہی ایسا انقلاب برپا اور اس کی رہنمائی کرسکتا ہے جو بعض خصوصیات کا حامل ہو۔ امام خمینی رح ایسی ہی نمایاں خصوصیات کے حامل تھے اورعملی طور پر انہوں نے ثابت کردیا کہ وہ ایرانی عوام کی اسلامی تحریک کے بے مثال اور عظیم رہنما تھے۔

امام خمینی رح کی ایک اہم خصوصیت ، جس کی بنا پر وہ انقلاب کے دوسرے رہنماوں سے ممتاز قرار پاتے ہیں، ایک نجات دلانے والے دین کے طور پر اسلام پر ایمان کامل رکھنا تھا۔ حضرت امام خمینی رح ایک ممتاز دینی عالم تھے اور فقہ ، اخلاق، عرفان، اور اسلامی فلسفے پر ان کو مہارت حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے  کہ ایران کے مسلمان عوام ان کی پیروی کو اپنے لئے ضروری جانتے تھے۔

البتہ لوگ صرف دینی منصب کی وجہ سے امام خمینی رح کے گرویدہ نہیں تھے بلکہ وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ ان کا رہنما قرآن کریم اور اسلام کی تعلیمات پر خود بھی عمل کرتا ہے۔ بانی انقلاب اسلامی تہہ دل سے اسلامی تعلیمات پر ایمان رکھتے تھے۔ انہوں نے انقلابات کے دوسرے بعض رہنماؤں کی طرح اپنے مذہب کو کامیابی کا زینہ قرار نہیں دیا تھا۔

امام خمینی رح اللہ تعالی کی ذات پر محکم ایمان کی وجہ سے ہی ہمیشہ اپنے آپ کو اس کی بارگاہ میں حاضر پاتے تھے اور آپ کو سکون ملتا تھا۔ جیسا کہ سورۂ رعد کی آیت نمبر اٹھائیں میں ارشاد ہوتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے ہیں اور ان کے دِلوں کو یادِ خدا سے اطمینان حاصل ہوتا ہے اور آگاہ ہو جاؤ کہ اطمینان یادِ خدا سے ہی حاصل ہوتا ہے۔

مشکلات کے مقابلے کے دوران یہ اطمینان بہت زیادہ موثر واقع ہوا۔ مثلا امام خمینی رح نے جب چودہ برس کی جلاوطنی کے بعد یکم فروری کو وطن واپس آنے کا فیصلہ کیا تو شاہی حکومت نے ان کے ہوائی جہاز کو مار گرانے کی دھمکی دی۔ لیکن امام خمینی رح نے اللہ تعالی پر توکل کرتے ہوئے اپنے فیصلے کو عملی جامہ پہنایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہوائی جہاز میں آپ کے ساتھ آنے والوں نے بیان کیا کہ ہوائي جہاز میں آپ کو کسی طرح کا خوف لاحق نہیں تھا اور آپ بڑے اطمینان و سکون سے تھے۔

بنابریں انقلابی تحریک کے دوران بھی اور اس کے بعد بھی امام خمینی رح جہاں بے مثال شجاعت اور اطمینان  سے ہمکنار رہے وہیں اللہ تعالی پر آپ کا توکل بھی ہمیشہ رہا۔  امام خمینی رح واقعی اللہ تعالی کے سوا کسی شخص، کسی حکومت اور کسی بھی طاقت سے نہیں ڈرتے تھے اور وہ سورۂ فصلت کی آیت نمبر تیس کے مصداق تھے جس میں فرمایا گیا ہے:

بیشک جن لوگوں نے یہ کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور اسی پر قائم رہے ان پر ملائکہ یہ پیغام لے کر نازل ہوتے ہیں کہ ڈرو نہیں اور رنجیدہ بھی نہ ہو اور اس جنّت سے مسرور ہو جاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔

ممالک اور انقلابات کے ایسے بہت سے رہنما گزر چکے ہیں جنہوں نے خوف کی وجہ سے اپنے دشمن کے ساتھ ساز باز کرلی اور اپنے انقلابی اہداف سے دستبردار ہوگئے۔ لیکن بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رح نے نہ صرف ایسا نہیں کیا بلکہ آپ نے اپنے دلیرانہ بیانات اور عمل کے ساتھ ایران کی عظیم قوم اور انقلاب کے دشمنوں کے دلوں پر خوف طاری کر دیا۔

امام خمینی رح کی شجاعت کے ایسے بہت واقعات قابل ذکر ہیں جو عوام اور حکام کے اندر شجاعت پیدا ہونے کا بھی سبب بنے۔ آپ ظالم و جابر پہلوی حکومت سے کبھی بھی خوفزدہ نہیں ہوئے۔ آپ کی تقریریں اور اعلامئے انقلابی تحریک کے دوران عوام کی خود اعتمادی کا باعث ہوتے تھے۔ امام خمینی رح انیس سو چونسٹھ میں گرفتار کر لئے گئے وہ اپنی اس گرفتاری کےبارے میں فرماتے ہیں کہ " اللہ کی قسم میں اپنی پوری زندگي میں کبھی نہیں ڈرا ۔ اس رات جب بھی کہ جب وہ ( یعنی شاہی حکومت کے کارندے) مجھے گرفتار کر کے لے جا رہے تھے تو وہ ڈرے ہوئے تھے اور میں ان کی ڈھارس بندھا رہا تھا۔ "

امام خمینی رح نہ صرف ظالم شاہی حکومت سے ہی خوفزدہ نہیں ہوتے تھے بلکہ ان کے آقا یعنی امریکہ سے بھی خوف محسوس نہیں کرتے تھے اور آپ نے بارہا اس تسلط پسند حکومت پر تنقید کی تھی۔ امام خمینی رح امریکہ کو شیطان اعظم کہا کرتے تھے اور اس حکومت کے شکار تمام لوگوں کو اس حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی دعوت دیتے تھے۔ آپ نے واضح لفظوں میں فرمایا کہ ہم نے امریکہ کے خلاف سخت جد و جہد شروع کر دی ہے اور ہمیں امید ہے کہ ہمارے فرزند اپنی گردنوں سے ظالموں کی غلامی کا پھندا اتار پھینکیں گے اور دنیا میں توحید کا پرچم بلند کریں گے۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر ظالم امریکہ کے ساتھ مقابلے پر مبنی اپنے فرض کو جاری رکھیں تو ہمارے فرزند کامیابی سے ہمکنار ہوں گے۔

جب اسلامی انقلاب کامیاب ہوا تو اس زمانے میں مختلف اسلامی ممالک میں رونما ہونے والے انقلابات کمیونزم اور سرمایہ داری میں سے کسی ایک کا انتخاب کرتے تھے۔ لیکن ایک ممتاز دینی عالم اور آئندہ پر نظر رکھنے والی شخصیت کے طور پر امام خمینی رح نے ایرانی عوام کے سامنے اسلامی نظام پیش کیا۔ آپ نے اس طرح کی حکومت کے بارے میں اختصار کے ساتھ فرمایا کہ ہم اسلامی جمہوریہ کے خواہاں ہیں۔ جمہوریت اس حکومت کی شکل ہے اور اسلامی سے مراد اس شکل کی اندرونی حقیقت ہے جو کہ الہی قوانین سے عبارت ہے۔

پس امام خمینی رح کے نزدیک اسلامی صرف عبادات کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک جامع دین ہےجس کا انسان کے انفرادی و اجتماعی منجملہ حکومت کے انتظام میں بھی عمل دخل ہے۔ اس اسلام کو آپ خالص محمدی اسلام کے نام سے پکارتے تھے۔ اور اسلام کی اس غلط تشریح کو، جس کی بنا پر اسلام صرف عبادات اور انفرادی مسائل تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے اور ظالموں کے ساتھ مقابلے کو نظر کر دیا جاتا ہے، امریکی اسلام سے تعبیر فرمایا کرتے تھے۔

سادہ زندگي بھی امام خمینی رح کی ایک اور اہم خصوصیت ہے جس کا سرچشمہ اسلامی تعلیمات تھیں۔ دنیا کے رہنما اور سیاستدان عیش و عشرت کی زندگي گزارتے ہیں لیکن حضرت امام خمینی رح نے رسول اکرم ص اور اہل بیت ع کی پیروی بہت سادہ زندگي اختیار کی۔ یہاں تک کہ جب  بہت سے غیر ملکی مہمان ان کے پاس جاتے تو آپ کی سادہ زندگي کو دیکھ کر حیران رہ جاتے۔ آپ کی اس سادہ زندگی کی وجہ سے عوام امام خمینی رح کے ساتھ زیادہ قربت محسوس کرتے تھے اور اس طرح رہبر اور عوام کی عقیدت بڑھتی جاتی تھی۔ 

دنیا کے بہت سے ممالک کے سیاستدانوں اور حکام کی تقریروں اور نعروں کا مقصد عوام سے داد وصول کرنا ہوتا ہے اور عملی طور پر وہ صرف ذاتی اور جماعتی مفادات کو ہی مدنظر رکھتے ہیں۔ لیکن امام خمینی رح اسلامی تحریک کی ابتدا سے ہی عوام کودوست رکھتے تھے۔ آپ یہ سمجھتے تھے کہ انقلاب لانے کے لئے ضروری ہے کہ لوگوں میں بیداری پیدا کی جائے اور وہ خود اٹھ کھڑے ہوں اور انقلاب برپا کریں۔

دوسری جانب عوام بھی امام خمینی رح کے ساتھ بہت زیادہ عقیدت رکھتے تھے۔ اسی لئے وہ امام خمینی رح پر خاص اعتماد کرتے ہوئے ان کی پیروی کرتے تھے۔ اس پیروی کے نمونے اسلامی انقلابی تحریک کے دوران ایرانی عوام کی عظیم فداکاری و جاں نثاری اور پھر صدام کی جارح فوج کی جانب سے ایران پر مسلط کردہ جنگ کے دوران ایران عوام کی ثابت قدمی اور شرکت کی صورت میں نظر آتے ہیں۔

امام خمینی رح انکساری سے کام لیتے ہوئے اپنے آپ کو عوام کا خادم قرار دیتے تھے۔ اور حکام کو تاکید فرمایا کرتے تھے کہ وہ عوام کی خدمت کریں۔ آپ فرماتےتھے کہ اگر عوام کسی حکومت کے پشت پناہ ہوں تو وہ حکومت سرنگوں نہیں ہوگي۔ اگر حکومت کسی گورنمنٹ کے حامی ہوں تو وہ گورنمنٹ برطرف نہیں ہوگي۔ 

 

 

ٹیگس