غریب ممالک میں گرمی کی لہریں خطرناک ثابت ہو رہی ہیں
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ غریب اور کم آمدنی والے ممالک میں گرمی کی لہریں (ہیٹ ویو) عام ہوگئی ہیں اور مختصر ہیٹ ویو سے ان ممالک پر پورے سال منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ یہاں تک کہ مختصر وقفے کی ہیٹ ویو سے پورے سال جی ڈی پی کی شرح 7 فیصد تک کم ہوسکتی ہے۔
سحر نیوز/ سائنس اور ٹکنالوجی: ایک اندازے کے مطابق مختصر ہیٹ ویو بھی پورے سال کے منفی مالیاتی اثرات کے لیے کافی ہوتی ہےاورغریب ممالک اس کے ذیادہ شکار ہوسکتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق 1992 سے 2013 تک دنیا بھر میں ہیٹ ویو سے اوسطاً 16 ٹریلیئن ڈالر کا نقصان ہوا جس کے براہِ راست معاشی اثرات مرتب ہوئے۔
ڈارٹ ماؤتھ یونیورسٹی کے پروفیسر جسٹن منکِن اور ان کے ساتھی کہتے ہیں کہ کلائٹ چینج کی بھاری قیمت کا اندازہ لگایا گیا ہے اور بتایا گیا کہ ہمارا معاشی نظام موسمیاتی تغیرات سے کس قدر حساس ہے۔
کئی تحقیقات بتاتی ہیں کہ ماحولیاتی بگاڑ میں سب سے کم کردار کے باوجود غریب، کم وسائل اور ترقی پذیر ممالک پر موسمیاتی تبدیلیاں سب سے زیادہ قہر ڈھائیں گی۔ بالخصوص منطقہ حارہ کے ممالک شدید گرمی سے دوچار ہوں گے۔
سائنسدانوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اس ضمن میں ایشیا اور افریقہ کا ڈیٹا غائب اور وہاں کے ممالک سب سے زیادہ متار ہوسکتے ہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ تاریخ کے گرم ترین دن ہم گزشتہ چند برسوں میں دیکھ چکے ہیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ پھر اسکندریہ سے لے کر کراچی تک اور افریقہ سے یورپ تک کئی ممالک میں گرمی کے ہولناک ادوار دیکھے جاچکے ہیں۔ اندازہ ہے کہ غریب ترین ممالک 1992 سے 2013 کے درمیان اپنے جی ڈی پی کا 6.7 فیصد کھوچکے ہیں۔ جبکہ امیرترین ممالک کا صرف ڈیڑھ فیصد نقصان ہوا ہے۔
پھر کئی ممالک میں گرمی کے فصلوں پر خطرناک اثرات مرتب ہوئے ہیں جبکہ ملازمت، پیداوار اور دیگر شعبے بھی متاثر ہوتے ہیں۔
ہیٹ ویو سے انفرااسٹرکچر متاثر ہوتا ہے، روڈ پگھل جاتے ہیں، لوگ کام پر نہیں جاسکتے اور ریلوے پٹڑیاں بھی متاثر ہوتی ہیں۔ ماہرین نے اس ضمن میں مناسب اقدامات اور انفرااسٹرکچر پر بھی زور دیا ہے۔