دنیا و آخرت کی مثال دو ستونوں جیسی
نہج البلاغہ سے امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے کلمات کے اقتباسات حاضر خدمت ہیں۔
یُرٰی عليه إزار خَلَقٌ مرقوع، فقيل له في ذلك، فقال:
يَخْشَعُ لَهُ الْقَلْبُ، وَتَذِلُّ بِهِ النَّفْسُ، وَيَقْتَدِي بِهِ الْمُؤْمِنُونَ. إِنَّ الدُّنْيَا وَالاْخِرَةَ عَدُوَّانِ مُتَفَاوِتَانِ، وَسَبِيلاَنِ مُخْتَلِفَانِ، فَمَنْ أَحَبَّ الدُّنْيَا وَتَوَلاَّهَا أَبْغَضَ الاْخِرَةَ وَعَادَاهَا، وَهُمَا بِمَنْزِلَةِ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ، وَمَاشٍ بَيْنَهُمَا: كُلَّمَا قَرُبَ مِنْ وَاحِد بَعُدَ مِنَ الاْخَرِ، وَهُمَا بَعْدُ ضَرَّتَانِ۔
ترجمہ
آپ (ع) کے جسم پر ایک بوسیدہ اور پیوند دار جامہ دیکھا گیا تو آپ سے اس کے بارے میں کہا گیا، آپ (ع) نے فرمایا، اس سے دل متواضع اور نفس رام ہوتا ہے اور مؤمن اس کی اقتدا کرتے ہیں ۔
◀ دنیا اور آخرت آپس میں دو ناساز گار دشمن اور دو جدا جدا راستے ہیں چنانچہ جو دنیا کو چاہے گا اور اس سے دل لگائے گا وہ آخرت سے اتنا ہی دور ہوتا جائے گا۔
◀ یہ دونوں بمنزلۂ مشرق و مغرب کے ہیں اور ان دونوں سمتوں کے درمیان چلنے والا جب بھی ایک سے قریب ہوگا تو دوسرے سے دور ہونا پڑے گا۔
◀ ان دونوں کا رشتہ ایسا ہی ہے جیسا دو ستونوں کا ہوتا ہے۔