زیارتنامہ فرزند رسول امام جعفر صادق علیہ السلام
فرزند رسول (ص) امام جعفر صادق علیہ السلام کی شہادت کی مناسبت پرسحرعالمی نیٹ ورک کی جانب سے ہم اپنے تمام ناظرین ، سامعین اورقارئین کرام کی خدمت میں تعزیت و تسلیت پیش کرتے ہیں۔
شہادت فرزند رسول امام جعفر صادق (ع)، رہبر انقلاب اسلامی کے بیانات کی روشنی میں
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای دام ظلہ نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی حیات مبارکہ پر ایک کتاب " پیشوائے صادق " کےعنوان سے لکھی ہے جو اسلامی انقلاب سے قبل پہلوی ظلم و استبداد کے گھٹن آمیز دور میں ، کی جانے والی ایک تقریر پر مشتمل ہے ، اس کتاب میں آپ نے اس زمانے میں حکمراں ، سماجی اور سیاسی حالات میں ، امام صادق علیہ السلام کی " اجتماعی جد و جہد " کوموضوع سخن بنایا ہے ۔ آپ نے خلفائے بنی امیہ اور بنی عباس کے دور میں اسلامی علوم و معارف کے میدان میں درباری علماء کی انحرافی تبلیغات کے مقابل امام علیہ السلام کی ثقافتی کوششوں کو دوعنوانوں میں تقسیم کیا ہے ۔
پہلا عنوان ہے مسئلۂ امامت کی تشریح و تبلیغ اوردوسرا عنوان ہے اہلبیت علیہم السلام کی روش پر قرآن کی تفسیر اور احکام کی وضاحت " ۔ہم اس مختصر گفتگو میں رہبر معظم کی تحریر سے ایک اقتباس پیش کررہے ہیں :
آپ لکھتے ہیں " امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے زمانے کے وسیع ترین علمی و فقہی مراکز میں سے ایک عظیم مرکز کے مالک تھے ۔امام صادق علیہ السلام کی زندگی کامطالعہ کرنے والوں کی نظر سے ایک مسئلہ جو یکسر پوشیدہ رہ گيا ہے اس سلسلے میں آپ کی سیاسی مفہوم کی حامل وہ تنقیدی روش ہے جس کی طرف ہم ایک اشارہ کرنے سے پہلے مقدمہ کے طور پر عرض کردیں کہ اسلام میں خلافت، دوسرے تمام حکومتی طریقوں کی نسبت ، اس اعتبار سے الگ ہے کہ یہ صرف ایک سیاسی منصب نہیں ہے بلکہ یہ ایک مذہبی ۔سیاسی رہبری ہے اسلام میں خلیفہ پیغمبر (ص) کا جانشین شمار کیا جاتا ہے جو دین لانے اوراخلاق کی تعلیم دینے کے ساتھ ہی عالم اسلام کے سیاسی حاکم اور رہبر بھی تھے ۔
اسلام میں خلیفہ سیاست کے علاوہ لوگوں کے دینی امور کا کفیل اور مذہبی پیشوا بھی سمجھا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے صدراول سے ہی خصوصا حضرت علی علیہما السلام اور امام حسن علیہما السلام کے بعد سلسلۂ خلافت میں آنے والے حکام نے کہ جن کی دینی آگاہی یا تو بہت کم تھی یا وہ اس سے بالکل بے نصیب تھے، کوشش کی کہ اپنے درباروں میں دینی شخصیتوں کو ملازم رکھکر اس کمی کو پورا کریں لہذا بہت سے نام نہاد زرخرید علماء فقہا مفسرین و محدثین درباروں سے وابستہ ہوگئے اور انہوں نے خلیفہ کے دربار کو " دین اور سیاست کا مجموعہ " ظاہر کرنے کی کوشش کی اس کا سب سے بڑا فائدہ ظالم حکمرانوں کو یہ تھا کہ وہ اپنی مصلحتوں کے مطابق دینی احکام میں تغیر اور تبدیلی پیدا کرکے اس کو استنباط اور اجتہاد کا نام دیدیا کرتے تھے ۔"
رہبر اسلام و مسلمین لکھتے ہیں: بنوامیہ کے آخری اور بنی عباس کے ابتدائي دور میں بہت سے فقہا ایسے بھی تھے کہ جنہوں نے بدعت آمیز طریقوں منجملہ قیاس اور استحسان سے کام لیکر اسلامی احکام اپنی طبیعت کے مطابق جو در اصل ظالم حکام کی خواہش کی ترجمانی کرتے تھے صادر کردئے تھے عینا" یہی کام قرآن کی تفسیر کے بارہ میں بھی کیا گیا اور اس طرح فقہ و حدیث و تفسیر دو بڑی روشوں اور لہروں میں تقسیم ہوگئیں ۔ ایک ظالم حکومتوں سے وابستہ دربار کی روش اور ایک حقیقی الہی و محمدی (ص) روش کہ جس کی نمائندگي اہلبیت رسول (ص) انجام دے رہے تھے ۔
لہذا اس دور میں " فقہ جعفری " کی اصطلاح اس زمانے کے سرکاری و درباری فقہا کے مقابلے میں استعمال ہوئی ہے ۔امام صادق علیہ السلام نے اپنے علمی دسترخوان کو وسعت دیکر فقہ ،اسلامی معارف اور قرآن کی تفسیر کے سلسلے میں حکومت سے وابستہ علماء کی روش سے الگ مرسل اعظم(ص) کی روش اپناکر علمی طور پر دربار کے خلاف ایک ثقافتی جہاد کا آغاز کردیا ۔
چنانچہ رہبر اسلام آگے بڑھ کر تحریرفرماتے ہیں کہ: منصور دوانقی نے جو کافی ذہین و زیرک تھا اور جس کی ایک عمر بنوامیہ کے خلاف پیکار میں گزری تھی ، اس حقیقت کو درک کرلیا کہ امام صادق (ع) نے حکومت کے خلاف بالواسطہ جہاد کا ایک دروازہ کھول دیا ہے لہذا اس نے آپ کے خلاف بڑے وسیع اور غیر محدود پیمانے پر دباؤ اور سختیاں بڑھادیں اور آپ کی علمی و فقہی سرگرمیوں کو کہ جس کا تاریخی کتب میں وسیع پیمانے پر ذکر ہے نظر میں رکھنے کے لئے کافی تگ و دو سے کام لیا۔
اور جب کچھ نہ کرسکا تو بالآخر زہر کے ذریعے آپ کو شہید کردیا-