Oct ۰۷, ۲۰۱۸ ۰۹:۴۰ Asia/Tehran
  • غنڈہ ٹیکس یا مجبوری کا تاوان + مقالہ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آہستہ آہستہ یہ بات پوری طرح واضح کر دی ہے کہ وہ سعودی عرب کی آل سعود حکومت کو تحفظ فراہم کریں گے تو اس کے عوض میں اس سے کیا قیمت وصول کریں گے۔

یہ قیمت اربوں ڈالر ہے، اتنا ہی نہیں ٹرمپ یہ بھی چاہتے ہیں کہ سعودی عرب کے تیل اور گیس کی پیداوار کی مقدار طے کرنے اور اس کی قیمتیں معین کرنے میں بھی وائٹ ہاوس کی مرضی چلنی چاہئے۔

مشرقی ورجینیا ریاست میں تقریر کرتے ہوئے ٹرمپ نے جو کچھ کہا وہ اس بات کا صاف اعلان ہے کہ امریکا اب پیٹرو ڈالر کے عوض آل سعود کی سیکورٹی جاری نہیں رکھے گا بلکہ اس شرط پر اس حکومت کو بر سر اقتدار باقی رہنے دے گا کہ تیل اور گیس کا ہر فیصلہ وائٹ ہاوس کی مرضی کے مطابق ہو۔

اس سے پہلے سعودی عرب اور امریکا کے درمیان روایتی معاہدہ تھا تیل کے عوض سیکورٹی۔ یہ سمجھوتہ فرینکلن روزولٹ اور سعودی فرمانروا عبد العزیز کے درمیان 1945 میں امریکا کے کیونسی نامی سمندری جہاز پر ہوا تھا اور اس سمجھوتے کی بنیاد پر امریکا، برطانوی استعمار کو قبضہ کرکے خلیج فارس کے ممالک میں من مانی کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا البتہ اس نے آل سعود حکومت کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ اس کی ڈکٹیٹر حکومت کی حفاظت کرتا رہے گا۔

یہ روایتی معاہدہ امریکا کے صدر باراک اوباما کے دور حکومت میں متزلزل ہونے لگا تھا کیونکہ آل سعود حکومت علاقے میں اپنی جنگ، امریکا سے لڑوانے کے منصوبے میں کافی آگے تک پہنچ گیا تھا۔ سعودی حکومت نے شام، عراق اور یمن میں امریکا کو استعمال کرنے کی کوشش کی تاہم باراک اوباما کا خیال تھا کہ سعودی حکومت خود ملک کے اندر متعدد متضاد چيزوں سے بر سر پیکار ہے اور اس کے رویے سے یہ تضاد اس کے وجود کے لئے خطرہ ہیں۔

ٹرمپ نے حکومت سنبھالنے کے بعد توازن درہم برہم کر دیا۔ ٹرمپ نے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ سعودی عرب نے امریکا نیز مغربی ممالک سے جو ہتھیار خریدے ہیں وہ اس ملک کی سیکورٹی کے لئے کافی نہیں ہیں۔ ٹرمپ نے کہا کہ یہ ناقابل قبول ہے کہ سعودی عرب امریکا کو پیسے دے اور خود کو محفوظ کر لے بلکہ سعودی عرب کو اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کرنا ہوگا کہ تیل اور گیس کی پیداوار میں بھی واشنگٹن کی مرضی کے مطابق کام کرے۔

سعودی عرب سے امریکا جو قیمت وصول کر رہا ہے اس سے سعودی عرب کا داخلی اقتصادی بحران مزید شدید ہوتا جا رہا ہے۔ 2018 میں سعودی عرب کا بجٹ خسارہ 60 ارب ڈالر سے زیادہ ہو چکا ہے۔ ولیعہد نے اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے سرکاری خرچوں میں تقریبا 30 ارب ڈالر کی کٹوتی کی اور قومی تیل اور گيس کمپنی آرامکو کا 5 فیصد شیئر فروخت کرکے 30 ارب ڈالر کی رقم حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا مگر اس سے ملک کے اندر ناراضگی بڑھ گئی۔

ٹرمپ کا دباؤ ہے کہ سعودی عرب کی 2 ہزار ارب ڈالر کی قیمت کی آرامکو کمپنی نیویارک کے شیئر بازار میں فروخت ہو جائے تاکہ سعودی عرب کی تیل اور گیس کی دولت کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق امریکا کے ہاتھ میں آ جائے۔ مگر یہ بھی طے ہے کہ بڑی بڑی قمیتیں وصول کرنے کے باوجود ٹرمپ، سعودی عرب کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

ٹیگس