Oct ۰۹, ۲۰۱۸ ۱۴:۵۱ Asia/Tehran
  • جمال خاشقجی کے قتل کے مسئلے میں عالمی اداروں کا ردعمل

بین الاقوامی سیاسی و قانونی اداروں اور اسی طرح دنیا کے مختلف ملکوں نے ترکی کے شہر استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں سعودی حکومت مخالف صحافی جمال خاشقجی کے ممکنہ طور پر ہونے والے قتل پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اس سلسلے میں ریاض کی جانب سے مکمل وضاحت پیش کئے جانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفن دوجاریک نے اعلان کیا ہے کہ اقوام متحدہ، اس قتل کیس پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

اقوام متحدہ کے آزادی بیان کے خصوصی رپورٹر ڈیویڈ کائی نے جمال خاشقجی کے قتل پر ردعمل دکھاتے ہوئے کہا ہے کہ اس قتل کے سلسلے میں مختلف رپورٹوں اور خبروں کے مدنظر بین الاقوامی سطح پر آزادانہ طریقے سے تحقیقات شروع کرائے جانے کی ضرورت ہے۔

امریکی ریاست فلوریڈا کے ریپبلکن سینیٹر مارکو ربیو نے اپنے ایک ٹوئٹ میں واشنگٹن کی جانب سے خاشقجی کے قتل پرسخت ردعمل کا اظہار کئے جانے کی ضرورت پر تاکید کی ہے۔

انہوں نے اس بات کا یقین بھی دلایا کہ قتل کے اس مسئلے کو وہ سینیٹ میں بھی اٹھائیں گے۔

ایک اور امریکی سینیٹر کریس مورفی نے بھی کہا ہے کہ سعودی حکومت مخالف اس صحافی کے قتل پر ریاض کی حکومت کو جواب دینا ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ سعودی عرب کو چاہئے کہ اس قتل کیس کے بارے میں وضاحت پیش کرے۔

برطانیہ اور فرانس کی وزارت خانوں نے بھی اپنے الگ الگ بیانات میں اعلان کیا ہے کہ اس تشویشناک قتل کیس کا مختلف طریقوں سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔

یورپ کی سیکورٹی و تعاون کی تنظیم نے بھی اعلان کیا ہے کہ سعودی عرب کے ہاتھوں استنبول میں سعودی حکومت مخالف صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے عالمی برادری کی ساکھ کو دھچکہ لگا ہے اور اگر اس جرم سے متعلق خبر کی تصدیق ہو جاتی ہے تو اس صحافی کے خلاف بہت بڑے جرم کا ارتکاب ہوا ہے۔

یورپی کمیشن نے بھی ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ پوری عالمی برادری کی مانند سعودی عرب سے یہی مطالبہ کیا جاتا ہے کہ خاشقجی کے بارے میں وضاحت پیش کرے۔

سعودی حکومت مخالف صحافی جمال خاشقجی کے قتل پر مختلف عالمی اداروں اور دنیا کے مختلف ملکوں کی جانب سے ایسی حالت میں ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے کہ امریکی حکومت، سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور آزادی بیان کے فقدان کے مس‏ئلے سے مکمل چشم پوشی کرتے ہوئے آل سعود حکومت کی حمایت کرنے کے علاوہ جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق کوئی بھی موقف اختیار کرنے سے گریز کر رہی ہے۔

سعودی عرب کے آل سعود خاندان سے علیحدہ ہونے والے شہزادے خالد بن فرحان آل سعود نے بھی الحوار ٹیلیویژن سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب کے اقتدار میں جب سے محمد بن سلمان آئے ہیں مختلف شعبوں میں پالیسی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے جس میں اندرون ملک مخالفین کی سرکوبی اور سعودی عرب میں لبنان کے وزیر اعظم سعد حریری کی گرفتاری کا مسئلہ بھی شامل ہے۔

سعودی عرب کے اس شہزادے کے مطابق سعودی عرب میں اگر انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور آزادی بیان کے فقدان کا مسئلہ کافی پرانا ہے تاہم سعودی حکام کے جرائم میں بے تحاشہ اضافہ ہو گیا ہے اور ان تمام جرائم کے ارتکاب میں سعودی حکام کو امریکی صدر ٹرمپ کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔

واضح رہے کہ سعودی حکومت مخالف صحافی جمال خاشقجی گذشتہ ہفتے منگل کو ترکی کے شہر استنبول میں سعودی قونصل خانے جانے کے بعد سے لا پتہ ہو گئے تھے اور ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ شہر استنبول سے ہی ان کی مسخ شدہ لاش ملی ہے جس پر ایذا رسانی کے نشانات بھی موجود ہیں۔

یہ ایسی حالت میں ہے کہ جمال خاشقجی کا نام سعودی حکومت کی مخالفت کرنے کی وجہ سے سعودی عرب کو مطلوب افراد کی فہرست میں شامل رہا ہے اور وہ گرفتاری کے خوف سے ہی بیرون ملک زندگی بسر کر رہے تھے۔

ٹیگس