Oct ۱۲, ۲۰۱۸ ۱۴:۰۲ Asia/Tehran
  • تجارت میں امریکہ نے چین کے خلاف نیا محاذ کھول دیا

ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے امریکہ اور چین کے تعلقات میں بہت زیادہ اتار چڑھاؤ آیا ہے اور مختلف میدانوں میں کشیدگی شدت اختیار کر گئی ہے۔

امریکہ نے اپنی قومی اسٹریٹیجی جیسی دستاویزات میں چین کو اپنا اصلی رقیب قرار دیتے ہوئے اس کی طاقت کے بارے میں نظرثانی کرنے نیز چین کی پالیسیوں اور اقدامات کے مقابلے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
اس کے مقابلے میں چین، روس کے ساتھ مل کر عالمی مسائل میں ٹرمپ کی اجارہ دارانہ اور یونی پولرازم پالیسی کے اہم ترین مخالف ہونے کے ساتھ ساتھ پروٹیکشن ازم پر استوار امریکی صدر کی تجارتی پالیسیوں کی بھی کھل کر مخالفت کر رہا ہے۔

امریکہ کے مخاصمانہ اقدامات کی ٹھوس اور کھلی مخالفت کی وجہ سے واشنگٹن نے بیجنگ کے خلاف بھرپور دباؤ اور دھمکیوں کی پالیسی اپنا رکھی ہے اور امریکی وزیر توانائی ریک پیری نے چین کو ایٹمی ٹیکنالوجی کی منتقلی کو محدود کرنے اور دوسری پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔
چین دنیا میں جدید ترین ایٹمی ری ایکٹروں کی سب سے بڑی منڈی شمار ہوتا ہے اور اسے اپنی بجلی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے وافر تعداد میں جدید ترین ایٹمی ری ایکٹروں کی ضرورت ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ کچھ عرصے کے دوران چین کے لئے امریکی ایٹمی برآمدات ایک سو ستر ملین ڈالر کے برابر تھیں۔
اس سے پہلے امریکہ ٹریڈ ٹیرف کی صورت میں چین کے خلاف تجارتی جنگ کا آغاز کر چکا ہے اور ٹرمپ کے حکم سے دو مرحلوں میں چین سے منگائی جانے والی مختلف اشیا پر دو سو پچاس ارب سے زیادہ کی ڈیوٹی عائد کی جا چکی ہے۔
چین نہ چاہتے ہوئے بھی امریکہ کی شروع کردہ تجارتی جنگ میں شامل ہو گیا ہے اور جوابی حملے کرتے ہوئے امریکہ نے مصنوعات پر برابر کی ڈیوٹی عائد کر دی ہے۔
چین کے وزیر اعظم لی کی چیانگ نے واضح کیا ہے کہ تجارتی جنگ کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے۔ آئی ایم ایف سمیت بہت سے عالمی مالیاتی اداروں نے بھی خبردار کیا ہے کہ ٹرمپ کی تجارتی جنک عالمی اقتصادی اور تجارتی نظام کو درہم برہم کر کے رکھ دے گی۔

ٹیگس