بریگزٹ ڈیل منظور، اختلافات بدستور باقی
یورپی یونین اور برطانیہ کے درمیان بریگزٹ ڈیل پر اتفاق ہو گیا ہے اور اس یونین کے باقی ماندہ ستائیس ملکوں نے ایک خصوصی تقریب میں بریگزٹ ڈیل پر دستخط کر دیئے ہیں۔
بریسلز میں ہونے والی خصوصی تقریب میں یورپی یونین اور برطانیہ کی کنزرویٹیو وزیراعظم کے درمیان بریگزٹ ڈیل طے پا گئی جس کے آدھے گھنٹے بعد ہی یورپی کونسل کے چیئرمین ڈونلڈ ٹسک نے اپنے ٹوئٹ میں یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کے منصوبے کی منظوری کا اعلان کر دیا۔
یورپی یونین کے ستائیس رکن ملکوں نے اگرچہ برطانیہ کی اس یونین سے علیحدگی کے منصوبے بریگزٹ کی منظوری دے دی ہے تاہم لندن اور برسلز کے درمیان اختلافات بدستور باقی ہیں۔
فرانس کے صدر امانوئل میکرون نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ جن لوگوں نے بریگزٹ کو برطانیہ کے لیے اربوں پاؤنڈ کی بچت کا منصوبہ بنا کر پیش کیا ہے انہون نے عوام سے جھوٹ بولا ہے۔
یورپی پارلیمینٹ کے چیرمین اینٹونیو تجانی نے واضح کر دیا ہے کہ اگر برطانوی ارکان پارلیمینٹ نے موجودہ بریگزٹ ڈیل کو مسترد کر دیا تو یورپی یونین اس معاہدے کے بارے میں از سرنوع مذاکرات ہرگز نہیں کرے گی۔
خود برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے نے بھی خبردار کیا ہے کہ اگر بریگزٹ ڈیل کو پارلیمینٹ نے مسترد کر دیا تو ملک میں افراتفری پھیلے گی اور وہ عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا۔
بریگزٹ ڈیل کی منظوری کو برطانوی وزیراعظم کی بڑی کامیابی سمجھا جا رہا ہے، تاہم اصل امتحان اس ڈیل کو برطانوی پارلیمینٹ سے منظور کروانا ہے کیونکہ اس ڈیل پر انہیں خود اپنے رفقا، وزرا اور سیاسی حلیفوں تک کی مخالفت کا سامنا ہے۔
لیبر پارٹی کے رہنما اور قائد حزب اختلاف جیرمی کوربن نے یورپی پارلیمینٹ میں بریگزٹ ڈیل کی منظوری پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ ان کی جماعت پارلیمینٹ میں بریگزٹ بل کی مخالفت کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک ایسا معاہدہ ہے کہ جس کے نتیجے میں آخرکار برطانیہ تنہا ہو کے رہ جائے گا۔
برطانوی عوام نے جون دو ہزار سولہ میں ہونے والے ریفرنڈم میں یورپی یونین سے علیحدگی کا فیصلہ کیا تھا اور فریقین نے مارچ دو ہزار سترہ میں علیحدگی کے لیے مذاکرات کا آغاز کیا تھا۔
یورپی یونین کے قوانین کے مطابق برطانیہ کی اس یونین سے علیحدگی کا عمل انتیس مارچ دو ہزار انیس تک مکمل ہو جائے گا۔
اس کے بعد کے اکیس ماہ کو عبوری دور قرار دیا گیا ہے۔ اس عرصے کے دوران برطانیہ اگرچہ یورپی یونین میں باقی رہے گا لیکن یورپی یونین میں اس کی طاقت اور اختیارات پہلے کے مقابلے میں کافی حد تک محدود ہو جائیں گے۔