امریکی وزیر خارجہ کا بن سلمان کی مذمت سے گریز
امریکی وزیر خارجہ نے ایک بار پھر ایران کے خلاف بے بنیاد دعووں کا اعادہ کرتے ہوئے، سعودی عرب کے جنگی جرائم کی مذمت سے گریز کیا ہے۔
کینیڈا کے وزیرخارجہ اور دفاع کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے سعودی حکومت کے مخالف صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ولی عہد بن سلمان کے کردار کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب دینے کے بجائے، بحث کو ایران کی جانب موڑنے کی کوشش کی۔
پومپیو نے انتہائی مضحکہ خیز انداز میں ایران پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام عائد کیا اور دعوی کیا کہ تہران میں مشرق وسطی میں عدم استحکام پھیلا رہا ہے اور اس کا مواخذہ کیا جانا چاہیے۔
امریکی حکام اور خاص طور سے اس ملک کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیر خارجہ مائیک پومپیو پچھلے چند ہفتوں سے مسلسل سعودی عرب کا دفاع کرتے چلے آئے ہیں حالانکہ یمن پر جارحیت اور مخالف صحافی جمال خاشقجی قتل کیس کے حوالے سے ریاض حکومت کو دنیا بھر میں تنقیدوں کے سیلاب کا سامنا ہے۔
دوسری جانب خود امریکی انٹیلی جینس ادارہ سی آئی اے بھی اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ جمال خاشقجی کے قتل کا حکم براہ راست سعودی ولی عہد بن سلمان نے دیا تھا۔ امریکی ارکان کانگریس نے بھی اس کیس میں سعودی ولی عہد کو سزا دیے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔ جمعرات کی شب امریکی سینیٹ نے سعودی عرب کے خلاف دو قراردادیں منظور کی ہیں۔
اکتالیس کے مقابلے میں چھپن ووٹوں سے منظور کی جانے والی ایک قرار داد میں حکومت امریکہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ جنگ یمن میں سعودی عرب کی حمایت کا سلسلہ بند کردے۔
امریکی سینیٹ کی منظور کردہ ایک اور قرارداد میں سعودی ولی عہد بن سلمان کو مخالف صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ سعودی عرب کے ساتھ ہونے والے اسلحے کی فروخت کے بھاری بھرکم معاہدوں کو باقی رکھنے کی غرض سے جمال خاشقجی قتل کیس میں آل سعود کی مذمت کرنے سے گریزاں ہے۔
جمال خاشقجی دو اکتوبر کو ترکی کے شہر استنبول میں قائم سعودی قونصل خانے میں داخل ہونے کے بعد لاپتہ ہوگئے تھے۔ سعودی حکومت نے شدید عالمی دباؤ کے بعد اٹھارہ دن کے بعد انیس اکتوبر کو اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ جمال خاشقجی کو قونصل خانے کے اندر قتل کردیا گیا ہے۔