جیمز میٹس کے استعفی پر امریکی سیاستدانوں کا ردعمل
امریکہ کی دونوں سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ نے شام سے امریکی فوجوں کی واپسی سمیت صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کی شدید مذمت کی ہے جس کے نتیجے میں امریکی وزیر جنگ کو اپنے عہدے سے استعفی دینا پڑا ہے۔
امریکی ایوان نمائندگا میں ڈیموکریٹ دھڑے کی رہنما نینسی پیلوسی نے کہا ہے کہ وہ جنرل میٹس کے استعفی پر دم بخود رہ گئیں کیونکہ اس کا ملک پر کیا اثر پڑے گا اور ہمارے فوجیوں کو اس کا کیا پیغام جاتا ہے؟۔
سینیئر امریکی سینیٹر چک شومر نے بھی اس موقع پر کہا کہ میٹس کے استعفے سے ٹرمپ انتظامیہ میں عدم استحکام کا پتہ چلتا ہے۔
ریپبلکن سینیٹر مارکو روبیو نے بھی کہا ہے کہ جیمز میٹس کے استعفے سے اس حقیقت کی نشاندہی ہوتی ہے کہ امریکہ ایک ایسی سیاسی غلطی کا ارتکاب کر رہا ہے جو نہ صرف ملک کے لیے خطرہ ہے بلکہ اتحادیوں کے ساتھ ہمارے تعلقات کو تباہ اور امریکہ کے دشنموں کو طاقتور بنانے کا باعث بنے گا۔
سینیٹر ڈک ڈربن نے کا کہنا ہے کہ جب ٹرمپ اپنے ٹوئٹ کے ذریعے ملک کی سلامتی کے بارے میں نادانی سے کام لے کر بکواس کرتے ہیں تو لگتا ہے کہ امریکی صدارت کے منصب پر کوئی نابالغ براجمان ہے۔
ریپبلکن سینیٹر پال رایان نے بھی اپنے بیان کہا ہے کہ جیمز میٹس کی وزارت کے دوران امریکہ اندرونی سطح پر زیادہ محفوظ اور بیرونی دنیا میں طاقتور ملک بن گیا تھا۔
سینیٹر لنڈسے گراہم نے بھی جیمز میٹس کے استعفے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں وزیر دفاع کے استعفے اور شام سے امریکی فوجیوں کے انخلا سے متعلق ٹرمپ کے عجلت پسندانہ فیصلے کے بارے میں سخت خبردار کرتا ہوں کیونکہ اس پالیسی کے نتیجے میں ملکی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی۔
سینیٹر مائیکل مک کینل کا کہنا ہے کہ مجھے امریکہ کے مستقبل کے حوالے سے انتہائی تشویش لاحق ہو گئی ہے کیونکہ ٹرمپ کی مخالفت کرنے والے ہر شخص کو گھر کا راستہ ناپنا پڑتا ہے۔
اوباما دور کے امریکی وزیر جنگ چک ہیگل نے کہا ہے کہ جمیز میٹس کے پاس استعفی دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کیونکہ ان کا اثر و رسوخ ختم ہو گیا تھا۔
قابل ذکر ہے کہ امریکی وزیر جنگ جمیز میٹس نے اپنے استعفے میں صدر ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آپ کو ایسا وزیر دفاع رکھنے کا حق حاصل ہے جو آپ کے نظریات سے ہم آہنگی رکھتا ہو لہذا میں سمجھتا ہوں کہ اپنے عہدے سے استعفی دینا ہی میرے حق میں بہتر ہو گا۔