ایران کے خلاف امریکا و اسرائیل کی ممکنہ جنگ اور اس کے نتائج (دوسرا حصہ)
امریکا و اسرائیل اس خام خیالی کا شکار ہیں کہ اس وقت ایران بہت کمزور پوزیشن میں ہے خاص طور پر اس ملک میں ہونے والے حالیہ مظاہروں کے بعد جو پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ہوئے تھے،(ایران کے بعض شہروں میں عوام نے پر امن مظاہرے کئے تھے لیکن اغیار سے وابستہ بلوائی عناصر نے عوام کے ان مظاہروں کو تشدد میں تبدیل کردیا-) ۔ اس کے علاوہ عراق میں بھی بیرونی طاقتوں سے وابستہ، نقاب پوش عناصرکےمظاہرے ہو رہے ہیں، امریکا ان مظاہروں سے مزید فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔
مغربی میڈیا ذرائع کے مطابق اسرائیل کے نئے وزیر جنگ نفتالی بنیت ایران کے خلاف جنگ کے سب سے بڑے حامی ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ وہ فوجی طاقت سے ایران کو شام سے نکالنے کی حکمت عملی پر کام کر رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اسرائیل نے 25سال پہلے حزب اللہ کی طاقت کے بارے میں بے حد غلط اندازہ لگایا تھا جس کا نتیجہ حزب اللہ کے پاس تقریبا ڈیڑھ لاکھ میزائل کے خوفناک خواب کے طور پر برآمد ہوا۔
ہم اس بات سے انکار نہیں کرتے کہ لبنان اور عراق میں ہونے والے مظاہروں سے جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کو استعفی دینا پڑا، ایران کے اتحادیوں کو نقصان پہنچا ہے اور ان ہنگاموں کے پشت پردہ امریکا، اسرائیل اور اس کے علاقائی اتحادیوں کو ذمہ دار قرار دینے میں ایران کے سپریم لیڈر نے کوئی ہچکچاہٹ نہیں دکھائی لیکن ایران پر کسی بھی طرح کا امریکی یا اسرائیلی حملے کا نتیجہ برعکس ہوگا اور عراق و لبنان کے عوام متحد ہوکر اپنے ملکوں کی حکومت کی حمایت کریں گے کیونکہ شام، لیبیا، یمن اور عراق میں امریکی فوجی اقدامات کے نتائج میں جو حالات بنے ہیں وہ اب بھی سب کو اچھی طرح یاد ہیں۔
ایک دوسری بات یہ بھی ہے کہ ان حالات میں ایرانی قیادت ہاتھ پر ہاتھ رکھے تو نہیں بیٹھی رہے گی اور نہ ہی ایرانی عوام اور وہاں کی فوج، امریکی و اسرائیلی جنگی طیاروں اور میزائلوں کا خوش ہوکر یا پھولوں کی بارش کرکے استقبال نہیں کرنے والے۔
مظاہروں کے سیاسی اثرات ہو سکتے ہیں لیکن وہ اثرات فوجی توانائی پر مرتب نہیں ہوں گے۔ ایرانی میزائلوں کی تباہ کن طاقت اب بھی پہلے جیسی ہے اور یہی حال شام،عراق، لبنان، یمن اور غزہ پٹی میں ایران کے اتحادیوں کی میزائل توانائی کا بھی ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے، ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب کے ایک سینئر عہدیدار جنرل نور اللہ نے کہا تھا کہ خلیج فارس میں 21 امریکی چھاونیوں پر میزائل برسیں گے اور ایران نے اپنے سب سے بڑے دشمن کے ساتھ وسیع جنگ کی تیاری کر رکھی ہے۔
مظاہرے تو ہر ملک میں ہوتے ہیں اور ان کے سیاسی اثرات بھی ہوتے ہیں لیکن جب جنگ کی آگ بھڑکے گی تو یہ سب چیزیں پیچھے رہ جائیں گی، نتن یاہو کی وزارت عظمی کی خواہش، ایران کے خطرے کو ختم کرنے کی آرزو اور ان کے ساتھ ان کے سارے عرب دوست، ریت کی دیوار کی طرح زمیں بوس ہو جائیں گے اور جیسا کہ ہم نے پہلے بھی کہا ہے کہ یہ جنگ آخری ہوگی، اس سے پورا علاقہ بدل جائے گا، متعدد حکومتیں اور قومیں تباہ ہو جائیں گی، نئی سرحدیں وجود میں آئیں گی اور نئی طاقتیں سامنے آئیں گی ... آپ بھی مشاہدہ کریں گے۔
بشکریہ
رای الیوم
عبد الباری عطوان
* مقالہ نگار کے موقف سے سحر عالمی نیٹ ورک کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے*