عراق پر مسلط کردہ امریکی جنگ کے دل دہلا دینے والے انکشافات (مقالہ)
امریکی جریدے نیشنل انٹریسٹ نے امریکا کی جنگِ عراق کے 17 سال پورے ہونے پر اس مسئلے کو اٹھایا اور کہا کہ پالیسی سازوں اور اسٹریٹیجک فیصلہ کرنے والوں کے لئے یہ جنگ اور اس کا نتیجہ آنکھ کھول دینے والا ہونا چاہئے۔
جریدے نے اپنے مقالے میں بیسویں صدی کے شروعاتی دور کے ہسپانوی فلسفی خوسئے اوٹیریگا ای گاسیٹ کے ایک قول کا حوالہ دیا ہے کہ انسان کا اصلی خزانہ اس کی غلطیاں ہوتی ہیں جو ہزاوں سال میں جمع ہوتی ہیں۔
جریدے کے اس مقالہ نویس رابرٹ ڈی کابلان نے لکھا کہ ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ہمیشہ حالات بہت خراب جہت کی جانب جا سکتے ہیں۔ مقالہ نگار کا کہنا ہے کہ کمرے میں بیٹھ کر تجزیہ اور تحلیل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، اصلی حالات تو میدان اور زمین پر ہوتے ہیں۔
امریکی، عراق میں پوری طرح ناکام رہے کیونکہ امریکا میں بڑے فیصلے کرنے والے اداروں کو ان ثبوتوں کے بارے میں کچھ پتہ ہی نہیں جو میدان میں رہ کر کام کرنے والے نامہ نگاروں اور تجزیہ نگار کے پاس ہیں۔
مقالہ نگار کا کہنا ہے کہ جنگ عراق کا فیصلہ تو کئی مہینے پہلے کر لیا گیا تھا لیکن جب 11 ستمبر کا واقعہ رونما ہوگیا تو کچھ ہفتوں کے اندر انتقام کے لئے پورے ملک میں ماحول بن گیا۔ تاہم امریکی رہنما اس وقت یہ سمجھ نہیں پائے کہ جو جذبہ اور سوچ اس وقت بنی ہے وہ زیادہ دیر تک نہیں چل سکے گی اور لوگ بعد میں الگ پیمانے پر اپنے خیالات معین کریں گے۔
جنگ عراق کی حمایت کرنے والے، اس وقت عام تباہی کے ہتھیاروں کی بات کرتے تھے، ان کی دلیل ہوتی تھی کہ جنگ عراق سے مشرق وسطی میں جمہوریت اور آزادی کو فروغ ملے گا مگر آج اتنا وقت گزر جانے کے بعد یہ ساری دلیلیں مضحکہ خیز لگنے لگی ہیں۔