اپنے موقف سے میکرون کی پسپائي، لیکن کیا انتہاپسندی کو جڑ سے ختم کیا جا سکے گا؟
فرانس کے صدر نے اپنے اسلام مخالف موقف اور توہین آمیز بیان پر عالم اسلام میں شدید غصہ پھیل جانے کے بعد کہا ہے کہ ان کا ارادہ اسلام کی توہین کرنے کا نہیں تھا۔
ایمانوئيل میکرون نے الجزیرہ ٹی وی سے بات کرتے ہوئي اپنے بیان پر صفائی پیش کی اور کہا کہ ان کا ارادہ اسلام کی اہانت کا نہیں تھا بلکہ وہ ان انتہا پسند گروہوں کو نشانہ بنانا چاہتے تھے جو دین کے نام پر مجرمانہ اقدامات کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ بعض افراد دین کو منحرف کر رہے ہیں اور اسلام کے نام پر تشدد پھیلا رہے ہیں اور ان گروہوں کا نشانہ بننے والے اسی فیصد افراد بھی مسلمان ہی ہیں۔
اپنے موقف سے میکرون کی پسپائی اور اپنے بیان کی صفائي کے باوجود ایسا نہیں لگتا کہ انتہا پسندی سے مقابلے کا جو راستہ بتا رہے ہیں اس پر چل کر کوئي نتیجہ حاصل کیا جا سکتا ہے اور بلاشبہہ جب تک انتہا پسندی کی جڑوں کو نہیں کاٹا جاتا، تب تک وہ ایک چیلنج کی حیثیت سے دنیا میں باقی رہے گي۔ انتہا پسندی سے مقابلہ اور اسے اسلام سے جوڑنا یا انتہا پسند مسلمانوں کی بات کرنا، وہی غلط راستہ ہے جو نہ صرف یہ کہ دہشت گردی کے خاتمے پر منتج نہیں ہوتا بلکہ وہ خود ہی مزید تشدد کے سامنے آنے اور ان انتہا پسند گروہوں کے طاقتور بننے کا سبب ہے جو اسلام کے نام پر جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔
انتہا پسندی سے مقابلے کے لیے سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ انتہا پسندی، اس کی فکری و نظریاتی حمایت اور اسی طرح مالی، تشہیراتی اور ابلاغیاتی حمایت کا سرچشمہ کیا ہے؟ اس سرچشمے کو ختم کر کے ہی دہشت گردی کی جڑ کاٹی جا سکتی ہے۔ مغرب کے بہت سے تھنک ٹینکس اور انسٹی ٹیوٹس کی تحقیقات سے یہ بات پوری طرح واضح ہو چکی ہے کہ انتہا پسندی اور اس کی ترویج کا سرچشمہ وہابی افکار و نظریات ہیں جو سعودی عرب سے پوری دنیا میں پھیلا دیے گئے ہیں۔
یہ حقیقت اس بات کو پوری طرح سے عیاں کر دیتی ہے کہ مغرب کو انتہا پسندی کی جڑوں اور اس کے سرچشمے کا بخوبی علم ہے اور وہ جانتا ہے کہ سعودی عرب ہی تکفیری انتہا پسندی کا منبع ہے لیکن مغربی ممالک سعودی پیٹرو ڈالرز کے لالچ میں اس حقیقت کی جانب سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ جب تک مغرب، اپنے اس منافقانہ موقف کو ترک نہیں کرتا تب تک دنیا سے اسلام کے نام پر پھیلائی جا رہی انتہا پسندی کا خاتمہ ممکن نہیں ہوگا۔