باضابطہ طور پر صدر کے انتخاب کے لئے امریکا میں الیکٹورل کالج کی ووٹنگ
امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں الیکٹورل کالج کے اراکین مقامی وقت کے مطابق پیر چودہ دسمبر کو اگلا صدر منتخب کرنے کے لئے باضابطہ ووٹ دیں گے۔
امریکا میں عوام کے ووٹ اگرچہ صدارتی امیدوار کے حق میں پڑتے ہیں لیکن ہر ریاست میں ان کے ووٹوں سے الیکٹورل کالج کے اراکین منتخب ہوتے ہیں۔
امریکا کی پچاس ریاستوں اور ڈسٹرک کولمبیا سے ان کی آبادی کے تناسب سے، صدارتی الیکشن میں الیکٹورل کالج کے اراکین منتخب ہوتے ہیں اور وہ صدارتی امیدوار کامیاب قرار دیا جاتا ہے جس کو الیکٹورل کالج کے پانچ سو اڑتیس میں سے کم سے کم دو سو ستر اراکین کے ووٹ ملیں۔
امریکی وقت کے مطابق پیر چودہ دسمبر کو الیکٹورل کالج کے اراکین کی طرف سے ڈالے جانے والے ووٹ سرکاری طور پر گنتی کے لئے چھے جنوری کو کانگریس میں بھیجے جائیں گے۔ چونکہ تین نومبر کے الیکشن میں مختلف ریاستوں سے الیکٹورل کالج کے تین سو چھے اراکین ایسے منتخب ہوئے ہیں جنہیں الیکٹورل کالج کی ووٹنگ میں جو بائیڈن کو اور دو سو بتس اراکین ایسے منتخب ہوئے ہیں جنہیں ٹرمپ کو ووٹ دینا چاہئے، اس لئے کہا یہ جارہا ہے کہ ٹرمپ الیکشن ہار گئے اور بائیڈن جیت گئے لیکن فتح وشکست کا حتمی فیصلہ الیکٹورل کالج کی ووٹنگ سے ہی ہوگا۔
یہ امریکا کے صدارتی الیکشن کا معمول ہے لیکن اس بار الیکٹورل کالج کی ووٹنگ کو اس لحاظ سے غیر معمولی اہمیت حاصل ہو گئی ہے کہ صدر ٹرمپ نے الیکشن کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ان کے ووٹ، چوری کرکے ان کے حریف بائیڈن کو دے دیئے گئے ہیں۔
عام طور پر ہر ریاست سے منتخب ہونے والے الیکٹورل کالج کے اراکین اسی امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں جس کے نام پر وہ منتخب ہوتے ہیں لیکن بعض اوقات کچھ اراکین اپنی ریاست کے عوام کے فیصلے کے خلاف بھی ووٹنگ کر دیتے ہیں۔
یہ امریکا کے صدارتی الیکشن کی پیچیدگی اور اُس کا بہت بڑا نقص ہے جس کی وجہ سے بعض دفعہ عوام کے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار بھی ناکام قرار دے دیا جاتا ہے۔
البتہ اس بار الیکٹورل کالج کی ووٹنگ سے نتائج بدل جانے کا امکان اس لئے بہت کم ہے کہ دونوں امیدواروں کے الیکٹرس کی تعداد میں بہت فرق ہے۔ جو بائیڈن کے نام پر جیتنے والے الیکٹورل کالج کے اراکین کی تعداد تین سو چھے جبکہ ان کے حریف ٹرمپ کے نام پر جیتنے والے الیکٹرس کی تعداد دو سو بتیس ہے۔