امریکی نمائندہ دفتر افغانستان سے دوحہ منتقل، امریکی وزیر جنگ اور سینٹکام کے سرغنہ سے استعفے کا مطالبہ کر لیا گیا
افغانستان پر امریکہ کا بیس سالہ قبضہ ختم ہونے کے بعد امریکی وزیرخارجہ نے اعلان کیا ہے کہ افغانستان میں اب اس ملک کا کوئی نمائندہ دفتر نہیں ہے اور ہم نے اپنی سفارتی ذمہ داریاں دوحہ منتقل کردی ہے
آنٹونی بلنکن نے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد واشنگٹن کے اقدامات کو ایک نئے باب سے تعبیر کیا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ کابل میں امریکہ کی سفارتی موجودگی ختم ہونے کے پیش نظر واشنگٹن نے افغانستان سے متعلق اپنے امور قطر کے دارالحکومت دوحہ منتقل کر دیئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اب ہم افغانستان میں اپنی ڈپلومیسی اور سفارتی مہم دوحہ سے چلائیں گے۔
بلینکن نے کہا کہ طالبان بین الاقوامی حمایت چاہتا ہے اور عالمی برادری سے اپنے لئے قانونی جواز کا خواہاں ہے ۔ انھوں نے اسی کے ساتھ کہا کہ اگر افغانستان کی نئی حکومت اس سلسلے میں ہم سے تعاون و اشتراک عمل چاہے گی تو ہم اس کے لئے تیار ہیں۔
امریکی صدر جوبائیڈن نے بھی افغانستان سے امریکی فوجیوں کے مکمل انخلاء اور اس ملک پر بیس سال تک غاصبانہ قبضے کے خاتمے کے اعلان کے بعد کہا ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی بیس سالہ فوجی موجودگی اب ختم ہوچکی ہے۔ بائیڈن نے مغربی ایشیا میں امریکی دہشتگردوں کے کمانڈر ، جنرل میک کینزی کی جانب سے پنٹاگون کے ساتھ ایک ویڈیو رابطے میں افغانستان سے امریکی فوج کے مکمل انخلا کے اعلان کے بعد یہ بیان جاری کیا ہے۔
دوسری جانب دسیوں ریٹائرڈ امریکی جرنیلوں نے ایک خط پر دستخط کر کے امریکی وزیر جنگ اور چیف آف آرمی اسٹاف کے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔ فارس نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق تقریبا نوے ریٹائرڈ امریکی جرنیلوں نے ایک خط میں افغانستان سے امریکہ کے ذلت آمیز انخلا میں کردار ہونے کی بنا پر امریکی وزیرجنگ لویڈ آسٹین اور امریکی فوج کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل مارک میلی کے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔
امریکی جرنیلوں کا کہنا ہے کہ میلی اور آسٹن کے استعفے افغانستان سے امریکہ کے جلد بازی پر مبنی خطرناک انخلاء پر شرمندگی کے اظہار کا واحد مناسب اقدام ہے۔ امریکی جرنیلوں نے مزید کہا ہے کہ اربوں ڈالر کے جدید ترین ہتھیار اور فوجی ساز و سامان کا ہاتھ سے نکل جانا اور دشمنوں کے ہاتھ لگ جانا ایک ایسا نقصان ہے جس سے امریکہ کی ساکھ کو ناقابل بیان نقصان پہنچا ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ اس کے بعد امریکا برسہا برس تک کسی بھی معاہدے یا کثیرالقومی مسائل میں ایک ناقابل اعتماد اتحادی سمجھا جائے گا۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ایسی حالت میں افغانستان سے انخلا کیا ہے کہ اس ملک میں ان کی بیس سالہ جنگ اور غاصبانہ موجودگی کا، دہشتگردی میں فروغ، جنگ وخونریزی ، تشدد ، عدم استحکام میں اضافے اور دسیوں ہزار نہتھے اور بےگناہ افغان عوام کے قتل کے سوا کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے۔