May ۰۴, ۲۰۲۲ ۱۴:۳۵ Asia/Tehran
  • امریکہ روس کو دنیا کے لیے خطرہ بنا کر پیش کرے گا، فیصلہ ہوگیا

امریکی فوج کے سربراہ جنرل مارک میلی اور وزیرجنگ لوئیڈ آسٹن نے سینیٹ میں پیش ہوکر روس یوکرین جنگ کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے روس کے ساتھ ساتھ چین کو بھی ایک خطرہ قرار دیا ہے۔

میڈیا رپورٹوں کے مطابق امریکی وزیر جنگ لوئیڈ آسٹن نے سینٹ کے ارکان کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ چین اور روس کے درمیان فرق صرف اتنا ہے کہ بیجنگ ابھی تک ہمارے لیے ایک مشکل بنا ہوا ہے جبکہ ماسکو حقیقی خطرے میں تبدیل ہوگیا ہے۔

جنرل مارک میلی نے سینیٹ  میں بیان دیتے ہوئے چین اور روس دونوں کو قابل توجہ فوجی طاقت کا حامل ملک قرار دیا اور یہ بات زور دے کر کہی کہ دونوں ممالک موجودہ عالمی نظام اور اس کے قوا‏عد تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔

امریکی فوج کے سربراہ نے  دعوی کیا ہے کہ یوکرین پر روس کا حملہ پورپ کے لیے ہی نہیں بلکہ عالمی امن و استحکام کے لیے بھی خطرہ شمار ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ اپنی فوجی طاقت کو روس اور چین کی فوجی طاقت کے مطابق ترقی اور توسیع دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔

 امریکہ کی جانب سے روس کو خطرہ بنا کر پیش کرنا دراصل، ماسکو کے خلاف واشنگٹن کی بھرپور محاذ آرائی کا حصہ ہے اور جنگ یوکرین کے بعد اس میں مزید شدت پیدا ہوگئی ہے۔

البتہ امریکہ مسلسل چین کی جانب سے لاحق عسکری خطرات کا بھی شور مچاتا رہا ہے، جس کا مقصد انڈو پیسفک ریجن میں نئے اتحاد قائم کرکے بیجنگ کو محصور کرنا ہے لیکن فی الحال امریکہ کی توجہ روس پر مرکوز ہوگئی ہے۔

یہ کہا جاسکتا ہے کہ  یوکرین پر روس کے حملے نے امریکہ کو ایک ایسا بہانہ فراہم کردیا ہے جسے بنیاد بنا کر وہ مغربی بلاک کو روس کے مقابلے میں متحد کرنے اور ماسکو کے خلاف بھرپورعالمی مہم چلانے کی کوشش کر رہا ہے۔

اس قسم کے حالات میں امریکہ زیادہ سے زیادہ پابندیوں کے ذریعے روس کو کمزور اور یوکرین کو عسکری میدان میں مضبوط بنا کر، روسی فوجی کارروائی کو ناکام بنانا چاہتا ہے۔

امریکی حکام اس خواہش کا  کھل کر اظہار بھی کرتے رہے ہیں اور صدر جوبائیڈن نے منگل کے روز اپنے بیان میں بڑے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ہماری حمایت کے نتیجے میں یوکرین والے جنگ جاری رکھیں گے اور روس کو اسٹریٹیجک شکست سے دوچار کردیں گے۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ  جنگ یوکرین نے امریکہ اور یورپ کو دوبارہ ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع فراہم کردیا ہے اور روس کے مقابلے میں دونوں کے موقف میں کافی ہم آہنگی  پائی جاتی ہے۔ حالانکہ سابق امریکی صدر ٹرمپ کے دور میں، بحراقیانوس کے دونوں جانب پائی جانے والی خلیج میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا تھا۔

ٹیگس