انتہا پسند یوکرینی گروپ روس کے خلاف نفرت پھیلارہے ہیں، روسی سفیر
اقوام متحدہ میں روس کے مستقل مندوب نے انتہا پسند یوکرینی گروہوں پر بچوں کو فوج میں بھرتی کرنے اور روس کے خلاف نفرت کی تربیت دینے کا الزام عائد کیا ہے۔
رشیا ٹوڈے کے مطابق، اقوام متحدہ میں روس کے مستقل مندوب ویسلی نبنزیا نے یوکرین کی صورتحال کے بارے میں سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یوکرین میں بچوں کو روس سے نفرت کی تربیت دی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کے لیے کام کرنے والی بعض انجمنیں انتہا پسندانہ اور فرقہ وارانہ نظریات کی ترویج کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ صرف لوہانسک کے علاقے میں سن دوہزار چودہ سے دوہزار بیس کے عرصے میں، پانچ سو سے زائد افراد تربیتی مراکز میں زخمی ہوئے ہیں۔
روسی عہدیدار نے مزید کہا کہ دونباس کے علاقے میں آج بھی بچے مارے جارہے ہیں اور یوکرینی فوج کے حملوں سے یتیم ہونے والے بچوں کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
ویسلی نبنزیا نے کہا کہ، آزوف بریگیڈ سمیت یوکرین کے فرقہ پرست گروہ بچوں کو مسلح افواج کے لیے بھرتی کر رہے ہیں، تاکہ ان میں روس کے خلاف نفرت بھری جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مقصد پورا کرنے کی غرض سے سات سے اٹھارہ سال کے بچوں کے لیے خصوصی چھاونیاں قائم کی گئی ہیں اور ماریوپول کی تلیگریم چھاونی ان میں سے ایک ہے۔
اقوام متحدہ میں روسی سفیر نے کہا کہ یوکرین میں سینتوریا نامی بچوں کی تنظیم بہت فعال ہوگئی جس کی اساس ہی انتہائی سخت گیر تفرقہ انگیز نظریات پر استوار ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے صحافی اور رپورٹر حضرات گواہ ہیں کہ آزاویتس چھاؤنی میں بچوں کو کس طرح سے بے رحم قاتل بنانے کی تربیت دی جارہی ہے۔
دوسری جانب بچوں کے عالمی ادارے یونیسیف کے ڈپٹی ڈائریکٹر عمر عبدی نے سلامتی کونسل کے اجلاس کو بتایا ہے کہ گزشتہ مہینوں کے دوران یوکرین میں کم سے ایک سو بچے مارے جاچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یونیسیف کے ذرائع ان اعداد و شمار کی تصدیق کرتے ہیں تاہم ہم سمجھتے ہیں کہ جنگ یوکرین میں ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
عمرعبدی کا کہنا تھا کہ بڑی تعداد میں یوکرینی بچے زخمی ہوئے اور ان کے حقوق بری طرح پامال ہوئے جبکہ لاکھوں بچے دربدری کا شکار ہیں۔
اس سے پہلے یونیسیف کے ایک عہدیدار نے بتایا تھا کہ صرف چھے ہفتے کے دوران دوتہائی یوکرینی بچے دربدر ہوئے ہیں اور اس ملک میں باقی رہ جانے والے بچوں کی آدھی تعداد کو کھانے پینے کی قلت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
بچوں کی غیر سرکاری عالمی تنظیم، سیودی چلڈرن نے گزشتہ ماہ اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ جنگ یوکرین کےآغاز سے اب تک اڑتالیس لاکھ لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا ہے جن میں بڑی تعداد میں بچے بھی شامل ہیں ۔