روسی صدر کی جرمن چانسلر سے ٹیلی فونی گفتگو
روس کے صدر نے جرمنی کے چانسلر سے کہا کہ یوکرین عالمی قوانین اور بین الاقوامی اصولوں کو پاؤں تلے روند رہا ہے۔
کریملن کے جاری کردہ بیان میں بتایا گیا ہے کہ روس کے صدر ولادیمیر پوتین اور جرمنی کے چانسلر اولاف شولٹس کی ٹیلی فونی گفتگو ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہی۔
پوتین نے گفتگو کے دوران کہا کہ یوکرین کی فوج دونباس علاقے کو بھاری گولہ باری کا نشانہ بنا کر عام شہریوں کو قتل کر رہی ہے۔ روس کے صدر نے کہا کہ یورپ کے گیس کے معاملے میں ماسکو نے خود کو ایک قابل بھروسہ فریق ثابت کرنے کی کوشش کی ہے لیکن مغرب نے پابندیاں عائد کرکے بحر بالٹک سے گزرنے والی نورڈ اسٹریم ون گیس پائپ لائن کی ضروری مرمت کا راستہ روک دیا ہے جس سے سب سے زیادہ یورپ متاثر ہو رہا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق پوتین اور شولٹس نے زاپوریژیا ایٹمی بجلی گھر اور اس کی حفاظت کو یقینی بنانے پر بھی گفتگو کی۔
گفتگو کے دوران جرمن چانسلر نے زاپوریژیا ایٹمی بجلی گھر کے اطراف میں ہر طرح کے خطرناک اقدام سے پرہیز اور آئی اے ای اے کی ہدایات پر عمل کرنے پر زور دیا۔
روس کے صدر نے یوکرین کو اس ایٹمی بجلی گھر پر مسلسل گولہ باری اور ممکنہ ایٹمی حادثے کا ذمہ دار ٹہرایا۔
یاد رہے کہ زاپوریژیا یورپ کا سب سے بڑا ایٹمی بجلی گھر ہے جس پر روس نے یوکرین پر حملے کے دوران مکمل طور پر قبضہ کر لیا تھا۔ زاپوریژیا ایٹمی بجلی گھر کے اطراف کے علاقوں کو متعدد بار بھاری گولہ باری کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ ماسکو اور کی ایف اس حملے کی ذمہ داری ایک دوسرے پر عائد کر رہے ہیں۔
دریں اثنا یورپی پارلیمان کی توانائی کی کمیٹی کی سربراہ کرسٹیئن سلویو بوشوئی نے ایندھن کی قلت کے نتیجے میں یورپ میں سخت سردی میں مسائل بڑھ جانے کی جانب سے خبردار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ تر یورپی وزرائے توانائی کا خیال ہے کہ گیس کی قیمت کے لئے حد مقرر کردینے سے حالات کو قابو میں نہیں کیا جا سکتا۔
کرسٹیئن سلویو بوشوئی نے کہا کہ روس کی گیس کے متبادل کی تلاش جاری ہے اور اب تک متعدد ممالک سے اس سلسلے میں گفتگو ہو چکی ہے۔
اس سے قبل روس کے اسپیکر ویاچسلاو ویلوڈین نے زور دیکر کہا تھا کہ مغرب کے توانائی کے بحران کی ذمہ داری مغربی اور یورپی ممالک پر ہی عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ روس کے بغیر یورپ اپنی توانائی کی ضرورتوں کو پورا نہیں کرسکتا۔
یاد رہے کہ یوکرین میں روس کی خصوصی فوجی کارروائی کے بعد، امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ماسکو کو وسیع پابندیوں کا نشانہ بنایا او یورپ سے ماسکو کی گیس سے وابستگی کم کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔
ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے روس پر عائد وسیع پابندیوں کا خمیازہ، سب سے پہلے یورپی ممالک ہی بھگتیں گے۔ رپورٹوں کے مطابق، روس نے معاشی میدان میں مناسب ردعمل دکھا کر اپنی معیشت کو کافی حد تک سنبھال لیا ہے اور یورپ کو گیس کی قیمت کم کرنے کی جانب سے خبردار بھی کیا ہے۔