بائیڈن کی نئی قومی سلامتی پالیسی کیا ہے؟
امریکی صدر نے کافی تاخیر کے بعد، اپنی حکومت کی قومی سلامتی پالیسی کا اعلان کردیا ہے۔
امریکی صدر جوبائیڈن نے بدھ کے روز اڑتالیس صفحات پر مشتمل اپنی حکومت کی قومی سلامتی پالیسی جاری کردی ہے حالانکہ پروگرام کے مطابق، یوکرین میں روسی فوجی آپریشن شروع ہونے سے چند ماہ قبل، اس پالیسی کا اجرا کرنا چاہتے تھے۔
نئی قومی سلامتی پالیسی میں بائیڈن نے اعتراف کیا ہے کہ، عالمی سیاست کے میدان میں بڑی تبدیلیاں آچکی ہیں اور سرد جنگ کے بعد کے تین عشرے قبل قائم ہونے والا عالمی نظام ، حتمی طور پر ختم ہوچکا ہے۔
جو بائیڈن کی جاری کردہ پالیسی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ اس وقت مستقبل کے معاملات کی تشکیل کے لیے بڑی طاقتوں کے درمیان زبردست رقابت جاری ہے۔
امریکی صدر نے نئی قومی سلامتی پالیسی میں چین کو عالمی سطح پر امریکہ کا واحد ہم پلہ رقیب تسلیم کرتے ہوئے، واشنگٹن کی روس پر توجہ مرکوز رہنے پر زور دیا ہے۔
بائیڈن نے اڑتالیس صحفات پر مشتمل نئی قومی سلامتی پالیسی کے مختصر دیباچے میں لکھا ہے کہ چین اپنی پوری گنجائش کے ساتھ اس بات کا ارادہ رکھتا ہے کہ عالمی نظام اس طرح تشکیل دی جائے جس میں عالمی توازن کا پلا ہمیشہ اس کے مفادات کی جانب جھکا رہے۔
امریکی صدر نے آگے چل کر یوکرین میں آٹھ ماہ سے جاری روسی فوجی کارروائی کا ذکر کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ روس کے اس اقدام نے بقول ان کے یورپ کے امن کو تباہ کردیا ہے اور اس کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہورہے ہیں ۔ انہوں نے یہ دعوی ایسے وقت میں کیا ہے جب معروف امریکی دانشور اور افینسیوریئل ازم سوچ کے بانی ، جان میئرشائمر نے مغرب کو جنگ یوکرین کا اصل ذمہ دار قرار دیا ہے۔
انہوں نے جنگ یوکرین کی وجوہات کا جائزہ لیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ مغرب کی جانب سے روس کی سلامتی کو درپیش خطرات کو نظرانداز کرنا اس جنگ کی وجہ بنا ہے۔ جان میئرشائمر کا کہنا ہے کہ یہ بحران جو اب حقیقی جنگ میں تبدیل ہوگیا ہے، دراصل، یوکرین کو روس کے مقابلے میں، مغربی محاذ کا مورچہ بنانے کی یورپی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
انہوں نے اپریل دوہزار آٹھ کو بخارسٹ میں ہونے والے نیٹو کے اجلاس میں یوکرین اور جارجیا کی رکنیت کا معاملہ پیش کیے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ روس نے اسی وقت واضح کردیا تھا کہ یہ اقدام اس کی ریڈ لائن کراس کرنے کے مترادف ہوگا، اس پرعملدرآمد ناقابل قبول ہے اور روس کی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ شمار ہوتا ہے۔
مذکورہ امریکی دانشور نے واضح کیا کہ دوہزاراکیس میں جوبائیڈن کے اقتدار میں آنے کے بعد سے امریکہ نے یوکرین کی حمایت میں بے تحاشہ اضافہ کیا ہے اور یہ کام روس کی ریڈ لائن توڑنے کے مترادف ہے۔