Nov ۱۱, ۲۰۱۸ ۱۶:۵۱ Asia/Tehran
  • امریکہ کی یکطرفہ پسندی،عالمی امن کے لئے خطرہ

اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف، دوسرے مرحلے میں چار نومبر سے عائد کی جانے والی امریکی پابندیوں کو، عالمی سطح پر مخالفتوں کا سامنا ہے- کیوں کہ امریکہ کی یکطرفہ پالیسیاں اور اس کا عالمی معاہدوں سے خارج ہونا اقوام متحدہ کے منشور اور بین الاقوامی اصول و قوانین کے منافی ہے۔

درحقیقت اقوام متحدہ کی تاریخ میں پہلی بار، امریکہ کہ جو سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہے اور ویٹو پاور رکھتا ہے، دنیا کی دیگر اقوام کو ، سلامتی کونسل کی کسی قرارداد کی خلاف ورزی یا مخالفت کے سبب نہیں، بلکہ سلامتی کونسل کی پیروی کے باعث سزا دے رہا ہے۔  امریکہ کے اس متکبرانہ طرزعمل اور خودپسندی و یکطرفہ پسندی نے، کہ جو قانون کی حکمرانی کے بجائے دنیا پر طاقت کی حکمرانی کو ظاہر کرتی ہے، دنیا کو خطرے سے دوچار رکھا ہے۔ ان دنوں اس وقت امریکہ کے تمام سیاسی و اقتصادی اقدامات، یکطرفہ پسندی کو عملی جامہ پہنانے کے مقصد سے انجام پا رہے ہیں۔ 

اقوام متحدہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے مستقل مندوب نے امریکہ کے عالمی معاہدوں سے انحراف اور اس کی تسلط پسندانہ پالیسیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ اسے امریکہ کی یکطرفہ اور متکبرانہ پالیسیوں کا مقابلہ کرنا چاہیے۔

اقوام متحدہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے مستقل مندوب غلام علی خوشرو نے امن اور عالمی سلامتی سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب میں یکطرفہ امریکی پالیسی اور اقدامات کو دنیا میں قانون کی بالادستی اور اقوام متحدہ کے منشور کے منافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی من پسند اور جارحانہ پالیسیوں نے دنیا میں قانون اور اجتماعی تعاون کی پالیسی کو نقصان پہنچایا ہے۔ انہوں نے انسانی حقوق کونسل ، یونسکو ، پیرس معاہدے اور مشترکہ ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکلنےکی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے یک طرفہ طور پر مشترکہ ایٹمی معاہدے سے خارج ہوکر سکیورٹی کونسل کی قرارداد نمبر 2231 کی خلاف ورزی کی ہے۔

اقوام متحدہ میں ایران کے نمائندے نے کہا کہ بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی نے اپنی 12 رپورٹوں میں  ایٹمی معاہدے پر ایران کے عمل پیرا رہنے کی تائید کرتے ہوئے ایران کے ایٹمی پروگرام کو پرامن قراردیا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دنیا، امریکہ کو اپنی یکطرفہ پالیسی کو مزید فروغ دینے کی اجازت نہ دے اور اس سلسلے میں دنیا کے ممالک صرف باتوں کی حد تک نہیں بلکہ عملی طور پر امریکی پابندیوں کو مسترد کریں-

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عالمی برادری نے واشنگٹن کی یکطرفہ پسندی کے مقابلے میں اپنی ذمہ داریوں پر عمل کیا ہے؟۔ اس سلسلے میں زیادہ تر توجہات یورپی یونین پر مرکوز ہوتی ہیں کہ جو ایٹمی معاہدے کا ایک فریق شمار ہوتا ہے۔ 

 یورپی یونین کی ترجمان مایا کوتسیانچیچ نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ ایٹمی معاہدے اور ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات کو برقرار رکھنے کے لئے یورپی یونین نے اپنی کوشش تیز کردی ہے - ان کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کے حکام کی کوششیں خاص طور پر نئے مالیاتی نظام ایس پی وی کے قیام پر مرکوز ہوگئی ہیں- یہ بیانات ایسے میں سامنے آرہے ہیں کہ سوئیفٹ سسٹم نے اعلان کیا ہے کہ بعض ایرانی بینکوں کا اس سسٹم کے ساتھ رابطہ منقطع ہوجائے گا۔ اور یورپی یونین نے بھی امریکی پابندیوں کا مقابلہ کرنے اور ایران کے ساتھ تجارت جاری رکھنے کے لئے یورپی کمپنیوں کو جس مالیاتی نظام کا وعدہ دیا ہے، وہ ابھی مبھم ہے۔ 

ایران کی خارجہ تعلقات کی اسٹریٹیجک کونسل کے سربراہ کمال خرازی نے یورپی اقدامات پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یورپی یونین کے توسط سے جو اقدامات عمل میں لائے جا رہے ہیں وہ سست روی کا شکار ہیں کہ جن پر عملدر آمد نہ ہونے کی صورت میں مشکلات وجود میں آئیں گی اور اس کے بہت زیادہ نقصانات بھی سامنے آئیں گے جس کا اثر، پہلے درجے میں مشرق وسطی کے علاقے اور یورپ پر ہوگا اور پھر دنیا اس سے متاثر ہوگی- 

انہوں نے ایٹمی معاہدے سے امریکا کے نکل جانے، اور ایران پر دوبارہ اورنئی پابندیاں عائد کرنے کے ٹرمپ کے فیصلے کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ تہران ایٹمی معاہدے پر پوری طرح سے عمل کررہا ہے اور امریکا نے ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی کرکے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ 

صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے بھی ایک اجلاس میں کہا ہے کہ امریکی حکام کو یہ بات باور کرادینے کی ضرورت ہے کہ وہ ایرانی قوم سے زور و زبردستی اور پابندیوں کی دھمکی کے انداز میں ہرگز بات نہیں کرسکتے- ایران کے صدر نے کہا کہ امریکیوں کو ہمیشہ کے لئے سبق سکھائے جانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اس بات کو سمجھ سکیں کہ وہ ایرانی قوم کے مقابلے میں کبھی نہیں ٹھہر سکتے۔ ڈاکٹر حسن روحانی نے کہا کہ جو کچھ امریکی کر رہے ہیں اس کا مقصد صرف عوام، کمپنیوں اور دیگر حکومتوں پر دباؤ ڈالنا ہے اور اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ صرف ایران ہی نہیں ہے جو امریکہ کی پالیسیوں سے ناخوش ہے بلکہ دنیا کے مختلف ملکوں کی حکومتیں یہاں تک کہ یورپی ملکوں کی حکومتیں، کمپنیاں اور حکام بھی امریکی حکومت کی اس قسم کی پالیسیوں سے برہم ہیں۔ 

بہرحال ایران کی تاریخ نے ثابت کردیا ہے کہ ایرانی قوم کبھی بھی اپنی خودمختاری کا سودا نہیں کرے گی اور ہر قیمت پر اغیار کے تسلط اور مداخلت کے مقابلے میں مزاحمت و استقامت کرتی رہے گی-

 

 

  

ٹیگس