Jun ۱۶, ۲۰۱۹ ۱۸:۲۷ Asia/Tehran
  • یکطرفہ پسندی کے مقابلے میں کثیر الفریقی میکنزم کے قیام کی ضرورت پر تاکید

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں، کانفرنس برائے باہمی روابط و اعتماد سازی سیکا( CICA ) کے سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چند جانبہ رجحان کے فروغ اور یکطرفہ پسندی کا مقابلہ کرنے پر تاکید کی ہے-

صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے اس اجلاس میں موجود سربراہان مملکت کو مخاطب کرتےہوئے کہا کہ موجودہ حساس صورتحال میں، اس تنظیم کے رکن ملکوں کو چاہئے کہ وہ دانشمندانہ پالیسیوں کے ذریعے چند جانبہ رجحان کو فروغ دیں اور یکطرفہ پسندی کا مقابلہ کریں- اسلامی جمہوریہ ایران کی پالیسی باہمی تعاون ، دوستی اور مشترکہ مفادات کے حصول پر مبنی ہے- اسی بنا پر تہران نے بارہا  ہمہ گیر امن و سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے دوطرفہ، چند جانبہ اور کثرالفریقی میکینزم کے قیام کے لیے اپنی آمادگی کا اعلان کیا ہے۔

سیکا اجلاس میں صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی کا خطاب اور اسی طرح اس اجلاس میں شریک سربراہان مملکت منجملہ امیر قطر اور تاجیکستان کے صدر کے ساتھ الگ الگ ملاقاتیں اسی نقطہ نظر کی تائید ہیں- اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے امیر قطر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی سے گفتگو میں علاقائی ملکوں کے امن و استحکام کو ایک دوسرے سے مربوط قرار دیا اور کہا کہ ایران علاقے کے ملکوں کے درمیان اعتدال، برادری، مصلت اور دور اندیشی کا خواہاں ہے۔ ڈاکٹر حسن روحانی نے کہا کہ ایران، پڑوسی ملکوں خاص طور سے قطر کے ساتھ تعلقات کی توسیع کو خاص اہمیت دیتا ہے۔ اس ملاقات میں امیر قطر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی نے بھی کہا کہ علاقے میں پائے جانے والے تمام اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے ختم کیا جاسکتا ہے۔

ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ میں سیکا اجلاس کے موقع پر ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان سے بھی گفتگو میں ایران اور ترکی کے درمیان علاقائی تعاون کو اہم قرار دیا اور کہا کہ علاقائی مسائل منجملہ آستانہ عمل اور شام کی تعمیرنو کے شعبوں میں روس کے ساتھ  دو طرفہ اور سہ فریقی تعاون بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ علاقائی امن و استحکام کے بھی مفاد میں ہے۔ اس ملاقات میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے بھی تاکید کے ساتھ کہا کہ ایران اور ترکی کے تعلقات مسلسل فروغ پا رہے ہیں اور دو طرفہ نیز علاقائی سطح پر ان تعلقات کا فروغ خاص اہمیت کا حامل ہے۔

عالمی برادری خاص طور پر مغربی ایشیا کا علاقہ گذشتہ چند عشروں کے دوران بہت زیادہ مسائل و مشکلات سے دوچار ہے کہ جس کی اہم ترین وجہ امریکہ کی یکطرفہ پسندی کی پالیسیاں ہیں- دہشت گردی اور انتہا پسندی کی امریکہ کی جانب سے حمایت، عالمی اداروں اور تنظیموں کے کردار میں کمی آنا، عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی اور ان سے نکل جانا، آزاد و خودمختار ملکوں کے داخلی امور میں مداخلت اور قومی اقتدار اعلی سے بے توجہی، یہ وہ مسائل ہیں جو اس وقت عالمی امن کے لئے خطرے میں تبدیل ہوگئے ہیں

امریکہ کی جانب سے اقتصادی پابندیاں عائد کرنا بھی، کہ جو بین الاقوامی قوانین کے منافی اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے، ایک طرح کی اقتصادی جنگ ہے کہ جو اس بات کا باعث بنی ہے کہ بین الاقوامی قوانین منجملہ ملکوں کے اقتصادی حقوق خطرے میں پڑجائیں-اس وقت تقریبا بیس ایسے ممالک ہیں جو امریکی پالیسیوں کے مخالف ہیں اور اسی سبب سے ان پر پابندیاں عائد کردی گئی ہیں-

بین الاقوامی امور کے ماہر سید محمد باقر نوربخش کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کو جان لینا چاہئے کہ ایک پرامن ، مستحکم، ترقی یافتہ اور پر رونق دنیا کے قیام کے لئے، ان کو یکطرفہ پسندی کے مقابلے میں ڈٹ جانا چاہئے- بین الاقوامی امور کے یہ ماہر مزید کہتے ہیں کہ امریکہ کی یکطرفہ پسندی اور اجارہ داری کے مقابلے میں عالمی برادری اور اقوام متحدہ کی استقامت، عالمی سطح پر آمریت کی روک تھام کر سکتی ہے اور یہ ثابت کرسکتی ہےکہ آج کی دنیا میں پابندیاں ایک ناکارہ اور منسوخ شدہ حربہ ہیں اور پابندیاں، قوموں اور حکومتوں کے درمیان باہمی تعاون اور معاملات کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی ہیں-

بلاشبہ یورپ کے دروازے اور پل کی حیثیت سے یوریشیا کے علاقے میں اس نظریے کی تقویت ، ، امریکہ کی یکطرفہ پسندی کا مقابلے کے لئ‏ے ایک اسٹریٹیجک پالیسی ہے اور علاقے کے ممالک کو اس شعبے میں تعاون کی اشد ضرورت ہے-

اسلامی جمہوریہ ایران نے ہمیشہ چندجانبہ اور کثیر الفریقی رجحان کی حمایت میں اپنا تعمیری کردار ادا کرتے ہوئے کوشش کی ہے فعال ڈپلومیسی کے ذریعے امریکہ کی یکطرفہ پسندی کے مقابلے میں ایک ٹھوس اور مضبوط محاذ قائم کرے- فطری طور پر آزاد و خودمختار ممالک ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کے ذریعے، امریکہ کی یکطرفہ پسندی کے مقابلے میں کہ جو تمام ملکوں کے قومی مفادات کے نقصان میں ہے، اپنی طاقت و قوت میں اضافہ کرسکتے ہیں اور علاقائی و بین الاقوامی اقتصادی تعاون کے فروغ  کا باعث بن سکتے ہیں-  

جیسا کہ صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ ایران،  ون ون پالیسی پر یقین رکھتا ہے اور مشترکہ مفادات کے حصول کے لیے تعاون اور ہم آہنگی کا فروغ ایرانی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر کا ایشیائی ملکوں کا یہ دورہ ملٹی لٹرل ازم  کے فروغ اور مونوپولر ازم کے مقابلے پر تاکید کے ساتھ ہی ہفتے کے روز اپنے اختتام کو پہنچا-

 

ٹیگس