Aug ۱۰, ۲۰۱۹ ۱۹:۵۶ Asia/Tehran
  • ایران کے بارے میں  فرانس  کا  ٹرمپ کو  دو ٹوک  جواب  

ٹرمپ کے دور صدارت میں امریکہ اور یورپ کے اختلافات ٹرمپ کی یکطرفہ پالیسیوں کی وجہ سے بڑھتے رہے ہیں۔ یورپ اور امریکہ کے درمیان اختلافات کی ایک اہم ترین وجہ کا تعلق جامع ایٹمی معاہدہ اور مجموعی طور پر ایران کے ساتھ رویہ سے ہے۔

اس سلسلہ میں فرانسیسی حکومت نے ایران کے ساتھ بات چیت کے بارے میں فرانس کے صدر امانوئل میکرون کو ٹرمپ کے انتباہانہ ٹوئیٹر پیغام  کے ایک دن کے بعد پیغام کا جواب دیتے ہوئے تاکید کے ساتھ کہا کہ ایران کے بارے میں اظہار خیال کے لئے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو امانوئل میکرون کو مخاطب قرار دے کر انتباہی انداز میں ایک ٹوئیٹر پیغام میں لکھا تھا کہ ”امریکہ کی طرف سے کسی کو بھی ایران سے بات چیت کرنے کا حق نہیں ہے۔“ ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کے روز اپنے ٹوئیٹر پیغام میں ثالثی کی امانوئل میکرون کی کوششوں کے تئیں اپنی ناراضگی کو واضح کردیا اور اشارتاً ان پر غلط وعدے کرنے کا الزام لگایا۔

ٹرمپ کے اس ٹوئیٹ پر فرانس نے سخت رد عمل کا اظہار کیا۔ فرانس کے وزیر خارجہ ژان ایو لودریان نے جمعہ کو اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ، ایران سے متعلق موضوعات پر بات چیت اور ایران کے بارے میں اظہار نظر کے لئے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے، اس بارے میں ٹرمپ کی تنقیدوں پر اپنے ردعمل کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ”فرانس ایران کے بارے میں حقِ حاکمیت کے لحاظ سے بات کرتا ہے۔ فرانس علاقے میں امن و سلامتی کے سلسلہ میں سخت پابند ہے اور کوشش بھی کر رہا ہے، فرانس کشیدگی میں کمی کے لئے بھی کوشاں ہے اور اس کام کے لئے کسی اجازت نامہ کی اس کو ضرورت نہیں ہے۔ اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ فرانس جامع ایٹمی معاہدہ کا پابند ہے اور امریکہ کے علاوہ اس معاہدہ کے دیگر ارکان کی طرح اپنے دستخط کا احترام کرتا ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ نے ایران کے ساتھ مذاکرات کا موضوع بارہا اٹھایا ہے جبکہ ایران نے ٹرمپ کے عوام کو دھوکہ دینے والے نظریات کے پیش نظر امریکہ کے ساتھ کسی بھی طرح کے مذاکرات کی تجویز کو ٹھکرایا ہے اور اس کو ایران پر امریکی مفادات مسلط کرنے کے لئے امریکہ کا صرف ایک حربہ سمجھتا ہے۔ موجودہ حالات میں، امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں ایران کے مسلسل انکار پر امریکہ نے دفاعی رویہ اپنایا ہے اور ایرانی وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف پر پابندی کے مسئلہ کو بھی جواد ظریف  کے حالیہ دورۂ نیویارک کے دوران ٹرمپ کے ساتھ ملاقات سے ان کے انکار سے نسبت دی جا رہی ہے۔

دریں اثنا ایران کے ساتھ تعلقات کے بارے میں فرانس کا موقف اور فرانس کے وزیر خارجہ کی اس بات پر تاکید کہ فرانس ایران کے بارے میں اپنے حقِ حاکمیت کے لحاظ سے موقف اختیار کرتا ہے، درحقیقت اس کا مطلب  ٹرمپ کو یہ بات سمجھانی ہے کہ فرانس سمیت یورپی ممالک ایران کے بارے میں اور جامع ایٹمی معاہدہ سمیت مسائل سے متعلق ٹرمپ کے نظریات اور مفادات کے مطابق عمل کرنے کے پابند نہیں ہیں۔ اگرچہ امانوئل میکرون کا خیال ہے کہ جامع ایٹمی معاہدہ میں کچھ کمیاں بھی ہیں جو مذاکرات کے ذریعہ حل ہونی چاہئیں لیکن وہ اس کو بین الاقوامی امن و سلامتی کے لئے ایک کار آمد ذریعہ بھی سمجھتا ہے نیز اس معاہدہ کو باقی رکھے جانے کے حق میں ہے۔ فرانس کے صدر نے حالیہ ہفتوں کے دوران ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی سے بارہا ٹیلی فونی گفتگو کی ہے اور دو بار اپنے سفارتی مشیر امانوئل بون کو تہران بھی بھیجا ہے۔

درحقیقت، ایران کے بارے میں پیرس اور واشنگٹن کے درمیان اختلاف اور کشیدگی سے ٹرمپ کے دورۂ صدارت کے دوران یورپ اور امریکہ کے درمیان کلی طور پر اختلافات کی عکاسی ہوتی ہے۔ ماحولیات سے متعلق پیرس معاہدہ ہو یا نیٹو کا مسئلہ یا تجارتی اختلافات اور جامع ایٹمی معاہدہ ہو یا ایران کے بارے میں رویہ، بہت سے مسائل کے بارے میں امریکہ اور یورپ کے موقف مختلف اور متضاد ہیں۔ علاوہ ازیں، امانوئل میکرون کے بارے میں ٹرمپ کے توہین آمیز ٹوئیٹر پیغام سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ یورپی لیڈران کو اپنے سے کمتر اور بنیادی طور پر یورپ والوں کو اپنا مقروض سمجھتے ہیں۔ بہرحال، فرانس سمیت یورپی ممالک ہر دور سے زیادہ اب یہ جانتے ہیں کہ ان کے مفادات امریکی مفادات سے جدا ہیں اور ان کو، خاص طور سے ایران کے ساتھ رویہ سے متعلق، تہران کے نظریات و مفادات کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔

ٹیگس