Dec ۰۲, ۲۰۱۹ ۱۶:۵۵ Asia/Tehran
  • ایٹمی معاہدے کے تحفظ پر یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے نئے سربراہ کی تاکید

یورپی یونین نے ، یورپی ٹرائیکا یعنی جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے ساتھ مل کر 2015 میں ایٹمی معاہدے کو نتیجہ بخش بنانے میں اہم کردار ادا کیا- تاہم ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکل جانے کے بعد یورپی ممالک، اس معاہدے کے تحفظ کے لئے اپنے وعدوں کی تکمیل میں ناکام رہ گئے ہیں-

اس وقت یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے نئے سربراہ جوزف بورل  Josep Borrell  نے اپنے ذمہ داریوں کے آغاز کے ساتھ ہی یہ وعدہ دیا ہے کہ وہ ایٹمی معاہدے کے تحفظ کی کوشش کریں گے- بورل نے ایک انٹرویو میں، کہ جو یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ کی حیثیت سے ان کی سرگرمیوں کے آغاز کے موقع پر نشر ہوا ہے ، ایٹمی معاہدے کو باقی رکھنے کے لئے ہمہ جانبہ کوششیں انجام دیئے جانے کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یورپی یونین اس معاہدے کے تحفظ اور بقا میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے- یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے نئے سربراہ نے ایٹمی معاہدے کے تمام فریقوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس سلسلے میں جو کچھ بھی کرسکتے ہوں ، کریں تاکہ یہ معاہد باقی رہ جائے-

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے نئے سربراہ کی جانب سے، حالیہ عہدہ سنبھالنے سے قبل کے موقف کے پیش نظر، ایٹمی معاہدے کے تحفظ پر تاکید کی بات قابل درک و فہم ہے- اس لئے کہ بورل اپنی بات کو واضح اور شفاف کہنے میں مشہور ہیں اور انہوں نے بارہا امریکہ کی یکطرفہ پالیسیوں پر نکتہ چینی کی ہے- بورل نے تقریبا دومیہنے قبل یعنی رواں سال سات اکتوبر کو ایٹمی معاہدے پر تاکید کرتے ہوئے کہا تھا ہمیں اپنے مفادات کی حفاظت اور اپنی سلامتی کے تحفظ نیز حالات کے مزید خراب ہونے کی روک تھام کے لئے، ایٹمی معاہدے کو باقی رکھنا ضروری ہے- اس معاہدے کو باقی رکھنے کے لئے یورپی ملکوں میں سیاسی ہم آہنگی و یکجہتی ، ضروری ہے- اس لئے توقع کی جا رہی ہے کہ یورپی یونین کے نئے انچارج بورل ، ایٹمی معاہدے کی غیر مناسب صورتحال کے پیش نظر، اس معاہدے کے تحفظ کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں گے-

یورپی یونین اور یورپی ٹرائیکا یعنی جرمنی، برطانیہ اور فرانس نے،  آٹھ مئی 2018  کو ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے غیر قانونی طور پر نکل جانے کے بعد یہ وعدہ دیا تھا کہ وہ ایران کے لیے خصوصی یورپی مالیاتی لین دین کے نظام انسٹیکس جیسی عملی تدابیر اپنانے کے ذریعے ، ایران کے اقتصادی مفادات کے تحفظ کی ضمانت کے ساتھ ہی اس معاہدے کی حفاظت کریں گے- یورپی ملکوں نے واشنگٹن کے توسط سے ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی کے اقدام کی لفظی مخالفت بھی کی، تاہم اس معاہدے کے تحفظ پر مبنی کوئی عملی اقدام ابھی تک انجام نہیں دیا ہے -

امریکا نے ایٹمی معاہدے سے نکلنے کے بعد ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی مہم چلارکھی ہے - امریکا کے اس غیر قانونی اقدام کے بعد فرانس برطانیہ اور جرمنی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایٹمی معاہدے سے امریکا کی علیحدگی سے ہونے والے نقصان کے ازالے کے لئے ایران کے اقتصادی مفادات کی تکمیل کریں گے- لیکن ان ملکوں نے بظاہر امریکاکے مقابلے میں اپنے لفظی اور سیاسی بیانات کے باوجود ابھی تک ایٹمی معاہدے کو باقی رکھنے کے لئے کوئی کامیاب عملی اقدام انجام نہیں دیا اور اسلامی جمہوریہ ایران نے بھی آٹھ مئی دوہزار انیس کو، ایٹمی معاہدے سے امریکا کی علیحدگی کو ایک سال پورے ہونے کے بعد معاہدے کی شق نمبر چھبیس اور چھتیس کے مطابق اپنے بعض وعدوں پر عمل درآمد کو معطل کردیا تھا اور یورپ کو ساٹھ روز کی مہلت دی تھی کہ وہ اس عرصے میں اپنے عملی اقدامات انجام دے لیکن پہلی ساٹھ روزہ مہلت گذرنے کے بعد ایران نے ایٹمی معاہدے کی بعض شقوں پر عمل درآمد کو معطل کرنے کا دوسرا اور پھر مزید ساٹھ روزہ مہلت ختم ہونے کے بعد تیسرا اور پھر چوتھا قدم بھی اٹھایا لیا ہے اور جیسا کہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے کہا کہ ایران کے صبر کی بھی ایک حد ہے اگر یورپ نے اپنے وعدوں پر عمل نہ کیا تو ایران اپنی عزت و وقار کے مطابق فیصلہ کرے گا  -

حکومت ایران ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد میں کمی کے چوتھے مرحلے پر قدم بہ قدم آگے بڑھ رہی ہے اور اگر یورپی ممالک ایٹمی معاہدے میں کئے گئے اپنے وعدوں پر عمل کریں گے تو چوتھا مرحلہ بھی گذشتہ تین مرحلوں کی طرح قابل واپسی ہوگا- اقوام متحدہ میں ایران کے نمائندے اسحاق آل یعقوب کے بقول ایران اس سے زیادہ، ایٹمی معاہدے کی حفاظت کا بوجھ اکیلے ہی نہیں اٹھا سکتا - ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ یورپ اگر واقعی ایٹمی معاہدے کا تحفظ چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ بورل کے دور میں اپنی موجودہ غفلت کی پالیسیوں کو بالائے طاق رکھ کر، ٹرمپ کے یکطرفہ اقدامات خاص طور پر ایٹمی معاہدے سے اس کے نکل جانے کے خلاف استقامت کا مظاہرہ کرے- یہ مسئلہ، یکطرفہ پسندی سے مقابلے کی ضرورت پر بورل کی تاکید کے پیش نظر اہمیت کا حامل ہے- جیسا کہ بورل نے اپنے حالیہ انٹرویو میں ، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے متنازعہ اقدامات  سے مقابلے کے لئے، یورپی یونین میں مخصوص پالیسیاں اپنائے جانے کی ضرورت تاکید کی ہے- بورل نے جولائی 2019 کے اوائل میں بھی اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ ایران نے اب تک ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کی ہے کہا کہ  ٹرمپ انتظامیہ نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے اور یورپ نے ایٹمی معاہدے کی بقا کے لئے اپنی تمام تر کوششیں انجام دی ہیں-

اس وقت یورپی یونین کو چاہئے کہ وہ ایٹمی معاہدے کو سلامتی کونسل میں لے جانے، اور ایران کے خلاف ایٹمی پابندیاں دوبارہ بحال کرنے کی ایران کو دھمکیاں دینے کے بجائے، تعمیری رول ادا کرے اور ایٹمی معاہدے میں کئے گئے وعدوں کو جلد از جلد عملی جامہ پہنائے تاکہ ایران ایک بار پھر اپنی سابقہ حالت پر لوٹ آئے اور ایٹمی معاہدے کے دائرے میں اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنائے-       

 

   

ٹیگس