Dec ۱۲, ۲۰۱۹ ۱۶:۰۳ Asia/Tehran
  • امریکہ نے قرارداد 2231 کی خلاف ورزی کی ہے: اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کہ جو شدت کے ساتھ ایٹمی معاہدے کے مخالف ہیں اور انہوں نے اس معاہدے کو امریکہ کے لئے ایک برا معاہدہ قرار دیا ہے ، آخرکار آٹھ مئی 2018 کو یکطرفہ طورپر واشنگن کے وعدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس بین الاقوامی معاہدے سے نکل گئے-

ٹرمپ نے قرارداد بائیس اکتیس کی آشکارا خلاف ورزی کرتے ہوئے ایران کے خلاف ایٹمی پابندیاں دوبارہ بحال کرنے کا اعلان کردیا- اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل آنٹونیو گوترش نے بدھ گیارہ دسمبر کو اپنی ایک مرحلہ وار رپورٹ میں قراردار بائیس اکتیس پر عملدرآمد کے بارے میں کہا کہ امریکہ نے، ایران کے خلاف پابندیاں عائد کرکے اس قرارداد کی مخالفت کی ہے- گوترش نے ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکل جانے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس کے مطابق تمام ممالک ایران کے ساتھ آزاد تجارت انجام دے سکتے ہیں-

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نےاس رپورٹ میں اسی طرح امریکہ کے توسط سے پیدا کردہ مشکلات کے باوجود ایران کی جانب سے ایٹمی معاہدے کی پاسداری کو سراہتے ہوئے کہا ایران نے جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی آئی اے ای اے کی متعدد رپورٹوں کے مطابق ایٹمی معاہدے پر مکمل طورپر عمل کیا ہے- ایران کے خلاف ٹرمپ انتظامیہ کی پابندیوں کے غیر قانونی اور ناجائز ہونے پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی تاکید سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ امریکہ ، اس عالمی ادارے اور دیگر ملکوں پر ہمہ جہتی دباؤ ڈالے جانے کے باوجود، ایران کے خلاف دباؤ ڈالنے کے لئے ان ملکوں کو اپنا ہمنوا نہیں بنا سکا ہے، بلکہ یہ ممالک، واشنگٹن کے اس اقدام کو بنیادی طور پر غیر قانونی  سمجھتے ہیں- ٹرمپ انتظامیہ گروپ فور پلس ون ممالک کے حکام اور حتی اپنے یورپی اتحادیوں کے ساتھ متعدد بار تبادلۂ خیال کرنے کے باوجود، ان میں سے کسی ایک بھی ملک کو ایٹمی معاہدے اور ایران کے خلاف اپنا ہمنوا بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے- اس مسئلے سے واضح ہوجاتا ہے کہ امریکہ کے برخلاف عالمی طاقتیں اس بات پر یقین رکھتی ہیں کہ ایٹمی معاہدہ ایک مفید اور موثر معاہدہ ہے اور ساتھ ہی آئی اے ای اے کی متعدد رپورٹوں کے مطابق تہران نے بھی مکمل طورپر ایٹمی معاہدے کے اپنے وعدوں پر عمل کیا ہے- 

ان مخالفتوں کے اعلان کے باوجود ، ٹرمپ انتظامیہ بدستور ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی جار رکھتے ہوئے مزید پابندیاں عائد کرنے پر زور دے رہی ہے- چنانچہ حال ہی میں امریکی وزارت خزانہ نے بدھ کے روز ایک بیان میں یہ دعوی کرتے ہوئے کہ ایران سے یمن ہتھیاروں کو منتقل کرنے والے ایک نیٹ ورک پر پابندی عائد کردی ہے کہا کہ ایران کی ایک شخصیت ، پانچ انسٹی ٹیوٹ اور دو پانی کے جہازوں کو پابندی کی فہرست میں شامل کردیا ہے-

امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو نے بھی بدھ کے روز ایک بار پھر کہا کہ واشنگٹن، اسلامی جمہوریہ ایران پر حد اکثر دباؤ ڈالنے کی اپنی پالیسی جاری رکھے گا- پمپئو نے امریکی وزارت خارجہ میں ایک پریس کانفرنس میں، ایران کے خلاف اس ملک کی نئی پابندیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف اپنا دباؤ بڑھا دیا ہے تاکہ علاقے میں ایران کے تخریبی اقدامات کی روک تھام کرے- امریکی وزیر دفاع مارک اسپر نے بھی بدھ کو ایران پر دباؤ ڈالنے کا اصلی مقصد ، تہران کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے مجبور کرنا بتایا ہے-

واشنگٹن نے اعلان کیا ہے کہ ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کا مقصد، تہران کے ساتھ نئے سمجھوتے کا حصول ہے کہ جس میں امریکہ کے مدنظر تمام مسائل کو بیان کیا جائے- ٹرمپ انتظامیہ نے بارہا کہا ہے کہ وہ ایران کو واشنگٹن کے مطالبات کے سامنے جھکنے پر مجبور کرنے کے لئے غیر معمولی پابندیاں عائد کرے گی- امریکی حکام ، تہران کا رویہ تبدیل کرنے کے لئے اپنی پابندیوں کے بے نتیجہ ہونے پر توجہ کئے بغیر، ایران کے خلاف پابندیوں اور مزید دباؤ کا ڈھول مسلسل پیٹ رہے ہیں- 

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اس امر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ امریکی صدر اقتصادی جنگ کی بات کر رہے ہیں کہا کہ میں اسے اقتصادی جنگ نہیں، اقتصادی دہشت گردی کا نام دیتا ہوں، کیوں کہ اس نے عام لوگوں کو اپنا نشانہ بنایا ہے- واشنگٹن کے دشمنانہ اقدامات کے باوجود ایران نے بارہا تاکید کی ہے کہ وہ سامراجی مطالبات کو مان لینے کے  مقصد سے، امریکی دباؤ کے سامنے کبھی نہیں جھکے گا - ساتھ ہی یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ عالمی اداروں منجملہ عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف نے بھی اپنی حالیہ رپورٹوں میں اعلان کیا ہے کہ ایرانی معیشت پر پابندیوں کے اثرات ختم ہوگئے ہیں اور ایرانی معیشت آئندہ سال اپنی سابقہ حالت پر لوٹ سکتی ہے-        

ٹیگس