Nov ۲۱, ۲۰۱۵ ۱۸:۲۷ Asia/Tehran
  • اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں داعش کے خلاف قرارداد کی منظوری
    اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں داعش کے خلاف قرارداد کی منظوری

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جمعہ کے روز داعش کے خلاف حملے کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی۔

سلامتی کونسل کی یہ قرارداد پیرس حملوں کے ایک ہفتے بعد متفقہ طور پر منظور کی گئی۔ اس قرارداد میں تمام ملکوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ شام اور عراق میں داعش کے خلاف جنگ میں شامل ہو جائیں۔

اس قرارداد میں کہ جس کا مسودہ فرانس نے پیش کیا تھا، کہا گیا ہے کہ داعش نے بین الاقوامی امن و سلامتی کے لیے ایک عالمی خطرہ پیدا کر دیا ہے۔ اس قرارداد میں اقوام متحدہ کے ان رکن ممالک سے کہ جو توانائی رکھتے ہیں، اپیل کی گئی ہے کہ وہ شام اور عراق میں داعش کے زیرکنٹرول علاقوں میں تمام ضروری اقدامات انجام دیں۔

اس قرارداد میں اسی طرح ملکوں سے یہ بھی اپیل کی گئی ہے کہ وہ عراق اور شام میں داعش کی صفوں میں شامل ہو کر جنگ کرنے کے لیے جانے والے غیرملکیوں کے داخلے کو روکنے کے لیے اپنے اقدامات سخت کر دیں اور دہشت گردوں کے مالی ذرائع کو روکنے کی کوشش کریں۔

فرانس کی یہ تجویز اس وقت منظور کی گئی کہ جب روس نے ایک اور قرارداد کے مسودے کا اصلاح شدہ متن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کیا کہ جس میں ملکوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ شامی حکومت کی موافقت سے اس ملک میں شام کے خلاف جنگ کریں۔ لیکن امریکہ برطانیہ اور فرانس نے اس مسودے کو مسترد کر دیا اور شامی حکومت کے ساتھ تعاون سے اتفاق نہیں کیا۔

موجودہ قرارداد انیس سو ننانوے سے لے کر اب تک دہشت گردی کے بارے میں سلامتی کونسل کی چودہویں قرارداد ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں داعش کے خلاف قرارداد کی منظوری کو اس تکفیری دہشت گرد گروہ کے خلاف عالمی برادری کی کارروائی کے میدان میں ایک اہم موڑ کے مترادف سمجھا جا سکتا ہے کہ اس دہشت گرد گروہ نے اب تک مختلف ملکوں خاص طور پر شام، عراق، افغانستان اور مصر میں بہت زیادہ انسانیت سوز اقدامات انجام دیے ہیں۔

اس کے علاوہ دنیا کے دیگر علاقوں خصوصا یورپ منجملہ فرانس میں داعش کے دہشت گردانہ حملوں نے مغربی ممالک کے لیے کہ جو اس دہشت گرد گروہ کے حامیوں میں سے تھے، خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔

بنیادی طور پر امریکہ، فرانس، برطانیہ جیسے مغربی ممالک اور ان کے عرب اتحادی خصوصا سعودی عرب، قطر اور ترکی خود داعش کے وجود میں آنے اور اس کے پھیلنے کا اصلی سبب ہیں اور آج اس وجہ سے کہ داعش نے ان کی بعض ریڈ لائنوں کو عبور کیا ہے، اس کے خلاف جنگ کے دعویدار ہیں۔

اگرچہ دو ہزار چودہ میں داعش کے عراق پر حملے اور اس کے کئی صوبوں پر قبضہ کر لینے کے بعد امریکہ نے داعش کے خلاف بین الاقوامی اتحاد تشکیل دیا، لیکن اس کی کاکردگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس اتحاد نے یا تو داعش کے خلاف موثر کارروائی کرنا نہیں چاہی یا وہ کر نہیں سکا۔

جیسا کہ حتی موجودہ صورت حال میں بھی داعش کی موثر مدد کی جا رہی ہے کہ جس کا ایک نمونہ داعش کے خودساختہ خلیفہ ابوبکر البغدادی کے عراقی جنگی طیارے کے حملے میں زحمی ہونے کے بعد ترکی میں اس کا علاج معالجہ ہے۔

اس طرح عملی طور پر مغرب والوں کی جانب سے کم از کم موجودہ وقت تک اس دہشت گرد گروہ کے خلاف موثر کارروائی کی کوئی علامت موجود نہیں ہے۔ اب پیرس کے دہشت گردانہ حملوں اور ان کے بعد دوسرے مغربی ملکوں میں داعش کی جانب سے دہشت گردانہ حملوں کی دھمکیوں کی وجہ سے فرانس نے سلامتی کونسل میں داعش کا بھرپور مقابلہ کرنے کے لیے ایک قرارداد کا مسودہ پیش کیا جسے منظور کر لیا گیا۔ لیکن ابھی بھی بہت سے ملک اس مسئلے کو شک و شبہے کی نظر سے دیکھ رہے ہیں اور داعش کا مقابلہ کرنے میں مغرب والوں کی صداقت و سچائی پر بھروسہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

جیسا کہ روس نے داعش کے خلاف موثر اور سنجیدہ حملے انجام دینے میں مغرب کے لیت و لعل پر گلہ شکوہ کیا ہے۔ اگرچہ مغرب والے داعش کے خلاف جنگ میں روس کی شراکت سمیت اتحاد قائم کرنے کا مسلسل دم بھرتا ہے، لیکن روس والے بھی اس سلسلے میں ان کی عدم سچائی کو سمجھ چکے ہیں۔

ان حالات میں یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ اس وقت مغرب والے دہشت گردی کی مخالفت میں نہیں بلکہ اپنی حفاظت کے لیے داعش کا مقابلہ کرنے کے لیے زیادہ اجتماعی اقدامات شروع کریں۔

جیسا کہ ترکی میں جی ٹوئنٹی کے اجلاس کے موقع پر امریکہ، جرمنی، برطانیہ، اٹلی اور فرانس کے سربراہوں نے داعش کا مقابلہ کرنے کے لیے تعاون کے میدان میں ایک بیان جاری کیا ہے۔

ٹیگس