گوشہ نشینی سے باہر نکلنے کی سعودی عرب اور ترکی کی نئی حکمت عملی
علاقے کے مختلف ملکوں منجملہ شام، عراق اور یمن میں انقرہ اور ریاض کی انٹیلیجنس، سیاسی اور فوجی سرگرمیوں کے انکشاف کے بعد ترکی اور سعودی عرب نے مشترکہ اسٹریٹیجک تعاون کونسل، تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے۔
سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے اپنے ترک ہم منصب مولود چاؤش اوغلو کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کے دورہ ریاض کے نتائج پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ملکوں کے سربراہوں کے مذاکرات میں اہم علاقائی مسائل کا جائزہ لیا گیا اور دونوں ملکوں کی، اسٹریٹیجک تعاون کونسل کی تشکیل، اس ملاقات کا اہم نتیجہ ہے۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے دعوی کیا ہے کہ اس کونسل کی تشکیل کا مقصد، علاقے میں استحکام کے قیام کے لئے ریاض اور انقرہ کے درمیان مختلف شعبوں خاص طور سے سیکورٹی کے شعبے میں تعاون کو فروغ دینا ہے۔
سعودی عرب اور ترکی کی اسٹریٹیجک تعاون کونسل کی تشکیل کا اعلان، علاقے میں ریاض اور انقرہ کی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے سعودی عرب اور ترکی کی حالیہ مہینوں کی نمائشی کوششوں کا حصہ، سمجھا جاتا ہے۔ اس کونسل کی تشکیل کا اعلان، ایسی حالت میں کیا گیا ہے کہ سعودی حکام نے پندرہ دسمبر کو اچانک اور یکطرفہ اقدام کے تحت، سعودی عرب کی سرکردگی میں اس ملک کی پالیسیوں سے ترکی سمیت بعض ملکوں کی یکسوئی و شمولیت سے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد اتحاد کی تشکیل کا اعلان کیا تھا جس پر بہت سے ملکوں منجملہ عراق و شام نے، جو علاقے میں دہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے والے اہم ممالک ہیں، سخت اعتراض کیا، اس لئے کہ اس اتحاد میں شامل ملکوں کی فہرست میں ان دونوں ملکوں کا نام موجود نہیں ہے۔ جبکہ ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے دہشت گردی کے خلاف تشکیل پانے والے نام نہاد اتحاد میں اپنے ملک کا نام شامل کئے جانے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس قسم کا اتحاد تشکیل دینے پر سعودی حکومت کے اقدام کو سراہتے ہوئے تاکید کے ساتھ اعلان کیا ہے کہ ترکی، سعودی عرب کی زیر قیادت اس اتحاد کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔
سعودی عرب کی سرکردگی میں دہشت گردی کے خلاف نام نہاد اتحاد میں ترکی کی شمولیت کا، انقرہ کی حکومت کی جانب سے خیرمقدم اور ریاض و انقرہ کی اسٹریٹیجک تعاون کونسل کی تشکیل کا اعلان، ایسی حالت میں کیا گیا ہے کہ علاقے کے مختلف ملکوں منجملہ شام، عراق اور یمن میں ان دونوں ملکوں کی سیاسی و فوجی مداخلت، کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ یمن کے مستعفی صدر منصور ہادی کو دوبارہ اقتدار میں لانے کی غرض سے اس ملک پر سعودی عرب کی وحشیانہ جارحیت، داعش اور جبہۃ النصرہ جیسے دہشت گرد گروہوں کے لئے سعودی عرب کی فوجی و مالی حمایت، ترک فوجیوں کا غیر قانونی طور پر شمالی عراق میں داخلہ اور شام و عراق کے تیل کی فروخت کے لئے داعش دہشت گرد گروہ کے ساتھ ترکی کے بھرپور تعاون کا انکشاف، علاقے میں ان دونوں ملکوں کے تخریبی اقدامات کا صرف ایک نمونہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ موجودہ صورت حال میں سعودی عرب و ترکی، مختلف طریقوں، خاص طور سے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد و خود ساختہ اتحاد کی تشکیل، اس اتحاد میں شمولیت اور اسی طرح دونوں ملکوں کی اسٹریٹیجک تعاون کونسل کی تشکیل کے اعلان سے، علاقے کے مختلف ملکوں میں اپنی فوجی مداخلت سے رائے عامہ کی توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس لئے کہ بعض عرب اور مغربی ملکوں کی حمایت سے ان دونوں ملکوں کے تخریبی اقدامات کے نتیجے میں علاقے کے دسیوں ہزار عوام کا قتل عام ہوا ہے اور قتل عام کا یہ عمل جاری رہنے سے، ان دونوں ملکوں کی نہ صرف یہ کہ ساکھ بری طرح سے متاثر ہوئی ہے بلکہ ان کے لئے سیاسی، سیکورٹی اور اقتصادی طور پر وسیع مشکلات بھی پیدا ہوگئی ہیں، اور حالیہ دنوں کے دوران سعودی عرب کی جانب سے ریکارڈ سو ارب ڈالر کے بجٹ خسارے کا اعلان، اور ترکی کے مختلف علاقوں میں وسیع پیمانے پر حکومت مخالف مظاہروں کا انعقاد، ان دونوں ملکوں کی غیر منطقی پالیسیوں کا ہی نتیجہ ہے۔