عراقی وزیر خارجہ کا ترکی کو انتباہ
عراقی وزیر خارجہ ابراہیم جعفری نے اپنے ملک کی سرزمین میں ترک فوجیوں کی موجودگی جاری رہنے کے خلاف اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے انقرہ کو فوجی آپشن کے استعمال کی دھمکی دی ہے۔
عراقی وزیر خارجہ نے اس سلسلے میں کہا کہ عراق کے اقتدار اعلی کی خلاف ورزی تسلیم کرنے کے معنی عراقی سرزمین میں ترکی کے فوجیوں کی موجودگی کو تسلیم کرنے کے ہیں اور بغداد حکومت نہ صرف اس توہین کو قبول نہیں کرے گی بلکہ وہ عراقی سرزمین سے ترکی کے فوجیوں کے مکمل اور فوری طور پر انخلا کی خواہاں ہے۔
عراق نے شروع سے ہی ترکی کے فوجیوں کی جارحیت کو دونوں ممالک کی اچھی ہمسائیگی کی خلاف ورزی قرار دیا ہے اور ترکی سے عراق سے فوری طور پر نکلنے اور اس خطرناک کھیل اور عراق کے اقتدار اعلی کی خلاف ورزی بند کرنے کا مطالبہ کیا۔
ترکی کے فوجی دسمبر سنہ دو ہزار پندرہ میں عراق کی کرد پیشمرگہ فورس کے اہلکاروں کی تربیت کے بہانے شمالی عراق میں واقع صوبۂ نینوا کے علاقے موصل میں داخل ہوئے۔
عراق نے اب تک صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے اور ترکی کے اس غیر قانونی اقدام کی مذمت کرتے ہوئے خطے اور عراق میں ترکی کی فوجی مہم جوئی پر مبنی پالیسی کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا اور اس بات کو ترجیح دی کہ عالمی برادری کے ذریعے اپنے ملک کی سرزمین پر سے قبضے کے خاتمے کی راہ حل ڈھونڈنے کی کوشش کرے۔
عرب لیگ اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے عراق کی سرزمین میں ترک فوجیوں کی موجودگی کی مذمت سے بھی اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ ساری دنیا ترک حکومت کی غاصبانہ پالیسی کے خلاف ہے۔ اس مخالفت نیز عراقی حکام کی جانب سے ترک فوجی عراق سے نکالنے سے متعلق ترکی کو انتباہ دیئے جانےاور عراق کی ارضی سالمیت کا احترام کرنے کے مطالبے کے باوجود انقرہ حکومت، عراق سے اپنے فوجی نہ نکالنے پر اصرار کررہی ہے۔
اس سے قبل حالیہ عشروں کے دوران ترکی کی حکومتیں موصل کو اپنے ملک کی سرزمین میں شامل کرنے اور تیل سے مالا مال کرکوک اور موصل کے علاقوں پر قبضہ جمانے کا ارادہ رکھتی تھیں۔ اور اب ایسا نظر آتا ہے کہ ترکی داعش کے مقابلے کے بہانے اپنا یہ مقصد حاصل کرنےکے درپے ہے۔
حالیہ برسوں کے دوران عالمی منڈیوں میں عراق کے کردستان علاقے کا تیل فروخت کرنے کے مقصد سے اس علاقے کے ساتھ انقرہ کے یکطرفہ تعاون اور پی کے کے کی نابودی کے بہانے شمالی عراق پر بمباری کی وجہ سے انقرہ اور بغداد کے کشیدہ تعلقات میں شدت پیدا ہوگئی تھی جو عراق کی سرزمین پر قبضے کے بعد اپنے عروج کو پہنچ گئی ہے۔
عراق کی خود مختاری کو نہ صرف تکفیری دہشت گردوں بلکہ علاقائی اور غیر ملکی طاقتوں کی جانب سے بھی خطرہ لاحق ہے۔ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش نے جون سنہ دو ہزار چودہ سے عراق کے بعض علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے اور اسے موصل اور عراق کے بعض دوسرے علاقوں پر قبضے کے سلسلے میں ترکی ، سعودی عرب، قطر ، امریکہ اور صیہونی حکومت کی حمایت حاصل ہے۔
ان حالات میں ترکی نے داعش کے مقابلے کے بہانے شمالی عراق کے خلاف جارحیت کی اور اس طریقے سے اپنے ہمسایہ ملک کی سرزمین پر قبضے کو جائز قرار دیا۔ عراق میں ترکی کی توسیع پسندی اور عراقی سرزمین میں ترک فوجیوں کی موجودگی ایسی جارحیت کا ایک واضح مصداق ہے جو عالمی قوانین اور اچھی ہمسائیگی کے اصول کے منافی ہے۔