مصر اور سعودی عرب کے اختلافات میں شدت
مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے تاکید کی ہے کہ قاہرہ عالمی اور علاقائی تعلقات کے شعبے میں ریاض کی خواہشات کا تابع نہیں رہے گا۔
مصر کے صدر نے اعلان کیا ہے کہ ریاض کو چاہیے کہ وہ علاقائی اور عالمی سطح پر بعض سیاسی مسائل کے حوالے سے دوسروں کے آراء اور نظریات کا احترام کرے کیونکہ مصر سعودی عرب کی خواہشات کو نظر میں رکھ کر اپنا کردار ادا نہیں کرسکتا۔
سعودی عرب کے حوالے سے مصر کے صدر کا تنقیدی بیان، کہ جس کو علاقائی ذرائع ابلاغ میں وسیع پیمانے پر کوریج دی گئی ہے ، قاہرہ اور ریاض کے درمیان جاری اختلافات کا آئینہ دار ہے۔
چند روز قبل مصر کے صدر نے صراحت کے ساتھ کہا تھا کہ علاقائی مسائل منجملہ بحران شام کے حوالے سے قاہرہ اور ریاض کے درمیان اختلافات موجود ہیں۔
مصر نے حالیہ مہینوں میں دمشق کی قانونی حکومت کے لئے اپنی بھر پور حمایت کا اعلان کیا ہے اور مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے رواں ہفتے منگل کے دن پرتغال کے سرکاری ٹی وی آر پی ٹی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے، اپنے موقف پر ایک بار پھر تاکید کی ، انہوں نے اس گفتگو میں ملک سے باہر امن مشن میں مصر کی فوج کی شراکت کے امکان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بہتر ہے مصر، لیبیا میں اور اسی طرح شام اور عراق میں سیکورٹی کی برقراری کے لئے کی جانے والی کوششوں کی حمایت کرے۔
مصر کے صدر کے اس موقف کو شام کے صدر بشار اسد کی حکومت کی حمایت میں مصر کے واضح اور روشن موقف سمجھا جارہا ہے۔
اسی دائرے میں شام کی قومی سلامتی کے دفتر کے سربراہ برگیڈیئر علی مملوک نے رواں سال اکتوبر کے مہینے میں اپنے دورۂ قاہرہ میں مصر کے انٹیلیجینس ادارے کے سربراہ بریگیڈیئر خالد فوری کے ساتھ ملاقات میں دھشت گردی کے خلاف مہم میں دو جانبہ ہماہنگی کی تقویت اور اسی طرح دمشق اور قاہرہ کے درمیان سیاسی تعلقات کی بہتری کی ضرورت پر تاکید کی تھی۔
ایسی صورت حال میں شام کے حماہ ائیربیس میں مصری پائلٹوں کی ایک تعداد کو بھیجے جانے کی خبریں منظر عام پر آئی ہیں۔
اگر چہ مصر کے حکام نے ان خبروں کو مسترد کردیا ہے لیکن اس قسم کی خبروں کا ذرائع ابلاغ میں آنا، اس حقیقت کا آئینہ دار ہے کہ علاقائی مسائل منجملہ عراق اور شام کے بحرانوں کے حوالے سے مصر کی پالیسیوں میں تبدیلی کا امکان پایا جارہا ہے۔
بعض سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس قسم کی خبروں کا میڈیا میں آنا، رائے عامہ کو تیار کرنے اور شام اور عراق کی فوج کے لئے مصر کی حمایت کے پروگرام کا اعلان معلوم ہوتا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ سعودی عرب اور مصر عرب دنیا کے امور کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینے کے حوالے سے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں رہے ہیں اور یہ مسئلہ باعث بنا ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات ہمیشہ نشیب و فراز سے دوچار رہے ہیں۔
قرائن و شواہد اور اسی طرح مصر اور سعودی عرب کو درپیش مشکلات کو دیکھتے ہوئے بھی نشاندہی ہوتی ہےکہ کچھ عرصے قبل دونوں ملکوں کی باہمی قرابت صرف جاری مشکلات سے پیچھا چھڑانے کے لئے ایک حکمت علمی ہی تھی۔
سعودی عرب کہ جو اس وقت یمن کے دلدل میں پھنستا جارہا ہے اور شام اور عراق میں بھی اپنے اہداف تک پہنچنے میں ناکام رہا ہے، اس کوشش میں ہے کہ مصر میں پائی جانے والی سیاسی اور فوجی گنجائشوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے علاقے میں اپنے تسلط پسندانہ مقاصد کے حصول میں حائل رکاوٹوں کو دور کرے۔
یہ ایسے میں ہے کہ مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی بھی سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات کو صرف اقتصادی مقاصد کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں۔
مصر کی حکومت کو شدید مالی اور اقتصادی بحرانوں کا سامنا ہے۔ ایسی صورت حال میں مصر کی حکومت نے سعودی عرب کی امداد پر امیدیں لگا رکھی تھیں، لیکن جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ سعودی عرب علاقے میں اپنی مداخلت پسندانہ اور جنگ پسندانہ پالیسیوں اور اسی طرح غلط اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے خود ہی شدید اقتصادی مشکلات کا شکار ہے اور وہ مصر کی بھر پور مالی اور اقتصادی مدد کرنے سے قاصر نظر آرہا ہے۔
اس درمیان علاقے میں سعودی عرب کے تسلط پسندانہ اقدامات کو آگے بڑھانے کے لئے، مصر کو مالی امداد کے دائرے میں گھیرنے کی ریاض کی کوششوں پر مصر کے حکام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور السیسی کا بیان بھی اسی ناراضگی کا منہ بولتا ثبوت ہے اور اس قسم کے مسائل باعث بنے ہیں کہ دونوں ملکوں کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہوجائیں۔