دہشتگرد گروہ منافقین کو امریکہ اور مغرب کی حمایت حاصل
ایم کے او دہشتگرد گروہ نے امریکہ کی پالیسیوں کے ساتھ مکمل ہم آہنگی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے واشنگٹن میں ایک اجلاس کیا ہے۔
اس اجلاس میں اس دہشتگرد گروہ نے سیاسی ڈرامہ کرتے ہوئے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کو دہشتگرد گروہ قراردینے کا مطالبہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ ایم کے او ایک انقلاب مخالف اور دہشتگرد گروہ ہے جس کو مغرب کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ اس گروہ کو ایران میں منافقین کہا جاتا ہے۔
منافقین کے حق میں امریکہ کی حمایت اور اس سے تعاون کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ عراق میں اس دہشتگرد گروہ کو ایک فوجی چھاؤنی سے دوسری چھاؤنی تک منتقل کرنا اور منافقین لیڈروں سے بعض امریکی سینیٹرروں کا رشوت لینا، تا کہ ان کی حمایت میں تقریر کرسکیں، منافقین اور امریکہ کی دوستی کا ایک نمونہ ہے۔
واضح رہے کہ ایم کے او گروہ نے انقلاب کی کامیابی کے ابتدائی برسوں میں اسلامی جمہوریہ ایران کے بعض حکام اور عوام کو اپنی دہشتگردی کانشانہ بنا کر پیرس کی سمت راہ فرار اختیار کی تھی اور مسلط کردہ جنگ کے شروع ہونے کے بعد انہوں نے صدام کی آغوش میں پناہ لی تھی۔ درحقیقت انیس سو اکانوے اور انیس سو بانوے میں صدام نے کردوں کو کچلنے کے لئے منافقین سے بھی مدد حاصل کی تھی۔ اس طرح صدام نے کردوں کی نسل کشی کا منصوبہ مکمل کیا تھا اور اس میں کئی ہزار خواتین اور بچوں کا بھی قتل عام ہوا تھا۔ لیکن جب امریکہ کے حملے کے نتیجے میں صدام کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا اس کے باوجود منافقین کے حق میں امریکہ کی حمایت جاری رہی اور امریکہ نے انہیں کچھ برسوں تک اشرف فوجی چھاؤنی میں رکھا اور عراقی حکومت کی مخالفت کے بعد انہیں لبرٹی چھاؤنی منتقل کردیا۔ اس کے بعد انہیں امریکہ اور برطانیہ کی حمایت سے البانیہ منتقل کردیا گیا۔ ایم کے او گروہ کو دراصل ان تمام برسوں میں امریکہ اور بعض یورپی ملکوں کی حمایت حاصل رہی ہے۔ کسی زمانے میں ایم کے او گروپ امریکہ کے نزدیک دہشتگرد گروہوں میں شامل تھا لیکن جب سے اس دہشتگرد گروہ نے امریکہ کے مفادات کے لئے کام کرنا شروع کیا امریکہ نے اس کا نام دہشتگردوں کی فہرست سے نکال دیا حالانکہ اس گروہ کی ماہیت بدستور دہشتگردانہ ہے۔ منافقین کے دہشتگردانہ اقدامات کے بارے میں ناقابل انکار ثبوت و شواہد پائے جاتے ہیں اسی وجہ سے پچیس جون دوہزار چار کو امریکہ کے سابق وزیر دفاع ڈونالڈ رمسفیلڈ نے منافقین کو 'حفاظت شدہ گروہ' کا درجہ عطا کیا۔ دوہزار دس میں واشنگٹن کی ایک عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اس گروہ کا نام دہشتگردوں کی فہرست میں شامل رکھنا ایک غلطی ہے۔ پندرہ برسوں کے بعد امریکہ نے ستمبر دوہزار بارہ میں اس گروہ کو دہشتگرد گروہوں کی فہرست سے نکال دیا۔
بلاشبہ امریکہ ان برسوں میں اس دہشتگرد گروہ کو ایک نعم البدل کے طور پر رکھنا چاہتا تھا کیونکہ ایم کے او نے عراق میں اپنی کارکردگی سے یہ ثابت کردیا تھا کہ وہ ایجنٹ اور کرائے کے پٹھوؤں کی طرح ایران کے دشمنوں کے کام آسکتا ہے۔ اس دہشتگرد گروہ کے لیڈر بھی خود کو ایران کی اپوزیشن پارٹی ظاہر کرنے کے لئے امریکہ اور یورپی ملکوں کے دئے ہوئے ہر موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنا کریھ چہرہ پنہاں کرلیتے ہیں۔ واشنگٹن کی طرح کا اجلاس گزشتہ برس پیرس میں ہوا تھا جس میں سعودی عرب کی انٹیلیجنس کے سابق سربراہ شہزادہ ترکی بن فیصل نے شرکت کی تھی۔ اس اجلاس میں ترکی بن فیصل نے ایران کے خلاف منافقین کی نئی سازشوں سے پردہ اٹھایا تھا۔ دہشتگرد گروہ ایم کے او کی سازشوں اور اس کے حق میں امریکہ کی حمایت کا جاری رہنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ واشنگٹن بدستور دہشتگرد گروہوں کا حامی ہے اور اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ یہ دہشتگرد گروہ منافقین ہوں یا پھر داعش ہو۔