آل سعود کی نمائشی اصلاحات کے سائے میں، سعودی عرب میں سرکوبیوں میں شدت
سعودی حکومت نے مخالفین کے خلاف اپنی سرکوبی کی پالیسی جاری رکھتے ہوئے، سعودی عرب میں دسیوں افراد کو گرفتار کرلیا-
سعودی عرب کی سرکاری نیوز ایجنسی ' واس ' کے مطابق سوشل نیٹ ورکس میں پیغامات شیئرکرنے کے سبب ، سعودی اہلکاروں نے چھیالیس سعودی مخالفین کو ، گرفتار کرلیا ہے- رونما ہونے والی تبدیلیوں سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ سعودی عرب میں امن و امان کی صورتحال بدتر ہوتی جا رہی ہے اور مخالفین کو بری طرح سے سرکوب کیا جا رہا ہے تاکہ مخالفین کا خاتمہ کردیا جائے-
ایسے حالات میں آل سعود حکومت مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے اس کوشش میں ہے کہ اپنی سرکوبی کی پالیسوں کو آگے بڑھائے اور اس طرح سے ملک میں جاری انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزیوں اور اس ملک میں سیاسی حقوق کے مکمل طور پر پامال کئے جانے سے رائے عامہ کی توجہ ہٹائے اور احتجاج میں کمی لائے- سعودی عرب میں رونما ہونے والی تبدیلیاں، عورتوں کو بعض شہری آزادیاں دیئے جانے میں خلاصہ ہوئی ہیں-
سعودی عرب اب عالمی سطح پر بعض نمائشی تبدیلیوں کے ذریعے، اپنا نیا چہرہ ظاہر کرنے کے درپے ہے - واضح رہے کہ سعودی عرب نے اب عورتوں کو ڈرائیونگ کی اجازت دے دی ہے اور ساتھ ہی عورتوں کو شوہر کے بغیر ملک سے باہر جانے اور بعض دیگر مواقع پر سفر کرنے کی اجازت دی ہے یہ وہ بعض شہری آزادیاں ہیں جو سعودی عرب نے عورتوں کو دی ہیں اور اس طرح عالمی رائے عامہ کی توجہ اپنی نام نہاد اصلاحات کی جانب مبذول کرنے کی کوشش کی ہے-
سعودی معاشرے میں خواتین بنیادی حقوق سے محروم ہیں بلکہ سعودی حکومت خواتین کے لیے انسانی حقوق کو قبول ہی نہیں کرتی۔ سعودی عرب دنیا کا ایسا ملک ہے جہاں پر خواتین کی شرح ملازمت سب سے کم ہے ۔ عورتوں کو رسمی تجارت کی اجازت نہیں ہے۔ خواتین میجمنٹ کے عہدے پر کام نہیں کرسکتیں۔ کسی بھی طرح کا کام کرنے کے لیے خواتین کو وزارت امور اسلامی سے اجازت نامہ حاصل کرنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ اپنے سرپرست سے بھی قانونی طور پر اجازت لینا لازمی ہے۔ جو عورتیں ملازمت کرتی ہیں ان کی تنخواہوں کا اوسط مردوں کی تنخواہوں سے بہت کم ہے۔
سعودی عرب میں لڑکیوں کی جبری شادیاں عام سی بات ہے۔ لڑکیوں کے والدین انہیں اطلاع دیئے بغیر کسی سے بھی ان کا نکاح کراسکتے ہیں۔ العربیہ ٹی وی چینل کے مطابق، دنیا بھر میں جبری شادیوں کے معاملے میں سعودی عرب سرفہرست ہے۔ سعودی عرب دنیا کا واحد ملک تھا جہاں پر عورتیں ڈرائیونگ نہیں کرسکتی تھیں، مردوں میں تقریر نہیں کرسکتیں، قبرستانوں میں انہیں جانے کی اجازت نہیں ہے، بینک اکاؤنٹ اپنے نام سے نہیں کھول سکتیں، ملکیت کو خرید سکتی ہیں نہ بیچ سکتی ہیں اور نہ ہی وہ عدالت میں کسی طرح کی شکایت کرسکتی ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ سعودی عرب عورتوں کو ڈرائیونگ کی اجازت دینے جیسے مسائل پیش کرنے کے ذریعے ، یمن میں نہتے عوام کا قتل عام اور دہشت گردی کی حمایت کرنے کے باعث ہونے والی ذلت و رسوائی پر پردہ ڈالنےکی کوشش کر رہا ہے- سعودی عرب کے یہ نمائشی اقدامات محض سماجی مسائل تک ہی محدود نہیں ہیں، اقتصادی پہلو سے بھی اس طرح کے اقدامات عمل میں لائے جا رہے ہیں اور یہ اقدامات سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کے توسط سے ویژن 2030 کے منصوبے کے تحت عمل میں لائے جا رہے ہیں- یہ ایسی حالت میں ہے کہ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ آل سعود کی حکومت کے زیر سایہ، سعودی عرب کو جس کمزورمعیشت کا سامنا ہے اس کے سبب یہ ملک آل سعود کے غیر حقیقی اور بھاری اخراجات کے حامل منصوبوں کی تکمیل پر قادر نہیں ہے- سیاسی مبصرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ آل سعود، اپنے ملک کے عوام کو، اپنے معاشی منصوبوں کے خواب دکھا کراس کوشش میں ہے کہ ان کی توجہ کو درپیش اقتصادی مشکلات سے موڑ دے-
اپنے ملک میں سیاسی فضا کو زیادہ سے زیادہ محدود کرنا اور گھٹن کا ماحول پیدا کرنا عوام کے سماجی اور شہری حقوق کو زیادہ سے زیادہ پامال کرنا یہ ایسے امور ہیں جن سے اہل عالم کے سامنے سعودی حکومت کی ماہیت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ آل سعود کے ہاں حکومت موروثی ہے اور عوام حکومت کی تشکیل میں کسی طرح کا کوئی کردار نہیں رکھتے ہیں، انہیں قانون سازی میں بھی شرکت کرنے کا حق نہیں ہے یہ ایسے عالم میں ہے کہ سعودی عرب میں جہموریت کی علامتوں جیسے انتخابات، سیاسی پارٹیوں، میڈیا کی آزادی نام کی کوئی چیز نہیں ہے ۔ آل سعود حکومت کی انسانیت سوز پالیسیاں اور عالمی اداروں کی طرف سے اس کی حمایت، اس بات کا باعث بنی ہے کہ سعودی عرب میں وسیع پیمانے پر انسانی حقوق پامال کئے جائیں ۔
آل سعود کی حکومت جو عوام کو کچلنے اور تشدد آمیز پالیسیوں پرعمل کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی اور کسی حد وحدود کی بھی قائل نہیں ہے اس نے عملا سعودی عرب کو انسانی حقوق کی پامالی کا مرکز بنارکھا ہے اور عالمی سطح پر اس بات کے چرچے ہیں۔ قانونی ادارے سعودی عرب کے حکام کے انسانیت سوز اقدامات کے خلاف، عالمی اداروں کے سنجیدہ اقدامات کے خواہاں ہیں۔ مغربی ملکوں کی حمایت سے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں سعودی عرب کی دوبارہ رکنیت سے عالمی برادری کو نہایت حیرت ہے۔