Dec ۳۱, ۲۰۱۷ ۱۷:۱۰ Asia/Tehran
  • وہابیت کے رجحان کے ساتھ دینی مدارس کا رجسٹریشن، پاکستانی حکام کا انتباہ

پاکستان کی وزارت مذہبی امور کے سیکریٹری نے اس ملک میں وہابیت کے رجحان کے ساتھ دینی مدارس کے رجسٹریشن کے بارے میں خبردار کیا ہے-

محمد آفتاب نے اعلان کیا ہے کہ بعض دینی مدارس میں وہابیت کی ترویج، پاکستان میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کی فکر کے رواج پانے کا سبب بنی ہے- وزارت مذہبی امور کے سیکریٹری نے اسی طرح یہ بھی کہا کہ پاکستان میں دینی مدارس کا رجسٹریشن، دہشت گردی سے مقابلے کے قومی منصوبے کے دائرے میں انجام پا رہا ہے- پاکستان کی حکومت نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ تیس ہزار دینی مدرسے جو اس ملک میں فعال ہیں ان میں سے صرف  " تیرہ ہزار چارسو"  ہی رجسٹرڈ ہیں جبکہ ان میں سے بہت سے مدرسے وہابیت کی ترویج کر رہے ہیں- 2001 میں افغانستان پر امریکی حملے اور اس وقت کے صدر جنرل مشرف کی جانب سے تعاون کے بعد امریکہ کے دباؤ کے سبب مشرف نے دینی مدارس کے خلاف سخت ایکشن لیا اور ان مدرسوں میں جو تعلیمی نصاب ہیں ان پر نگرانی عائد کردی-

اس کے علاوہ حکومت پاکستان نے ان مدارس کے رجسٹریشن کا بھی مطالبہ کیا۔ ان مدارس کے رجسٹریشن کے تعلق سے حکومت پاکستان کی ایک بارپھر تاکید اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ گذشتہ سولہ برسوں میں بہت سے دینی مدارس، رجسٹریشن نہ کرانے پر اڑے ہوئے ہیں- امریکہ ان مدارس کو علاقے میں تشدد پسندی اور دہشت گردی کی ترویج کا عامل قرار دیتا ہے اور وہ حکومت پاکستان سے ان پر کنٹرول سخت کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ درحقیقت واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان پائے جانے والے جملہ اختلافات میں سے ایک،  پاکستان کے دینی مدارس کی کارکردگی پر نگرانی کا طریقہ کار ہے- 

پاکستان میں سیاسی مسائل کی ماہر خدیجہ عسکر کہتی ہیں، پاکستان کے تمام مدارس کو سعودی عرب کی حمایت حاصل ہے اور بہت سے مدارس جیسے مدرسہ العربیہ پاکستان اور دارالعلوم حقانیہ ، تشدد پسند اور دہشت گرد گروہوں کے لئے فوجی تربیتی کیمپوں میں تبدیل ہوگئے ہیں- دینی مدارس میں تعلیم کا مفت نہ ہونا اور ان مدارس میں طلبا کی رہائش بھی اس بات کا باعث بنی ہے کہ بہت سے غریب گھرانے اپنے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لئے دینی مدارس بھیجتے ہیں- یہ مدارس کہ جو سعودی عرب کے اخراجات سے چل رہے ہیں اور وہابیت کے افکار کے زیر اثر ہیں حالیہ برسوں کے دوران علاقے میں انتہاپسندانہ افکار کی نشر و اشاعت کے مرکز میں تبدیل ہوگئے ہیں کہ جو حکومت پاکستان کے لئے بڑا درد سر سمجھے جاتے ہیں-

سیاسی مسائل کے ماہر ڈینیل پائپیس Daniel Pipes کہتے ہیں کہ ان مدرسوں کو سعودی عرب کی جانب سے مالی امداد فراہم کیا جانا ، در اصل وہابیت کو ایک عالمی طاقت میں تبدیل کرنے کی طویل المدت اسٹریٹیجی کو عملی جامہ پہنانا ہے- اس وقت بھی امریکہ کے بہت سے علاقوں سے لے کر بالقان کے علاقے، پاکستان اور انڈونیشیا تک کے ملکوں میں، دسیوں سال کی ان کوششوں کا اثر دیکھا جاسکتا ہے- سعودی حکام مختلف ملکوں میں وہابیت کو فروغ دینے کے مقصد سے، بھاری رقم بنیادی ڈھانچوں کی تعمیر میں خرچ کر رہے ہیں اور یہ ایک تشویشناک امر ہے۔ بہرحال ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ حکومت پاکستان کو امریکی دباؤ کے تحت، دینی مدارس کی صورتحال کے مستقبل کے تعلق سے کوئی فیصلہ کرنے اور امریکہ کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کے سلسلے میں دشوار حالات کا سامنا ہے- اگرچہ پاکستانی حکام امریکی دباؤ کو بے اثر قرار دے رہے ہیں لیکن مسلم لیگ کے حکام کے پے در پے سعودی عرب کے دوروں سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ حکومت اسلام آباد اس کوشش میں ہے کہ سعودی عرب کے حکام سے بات چیت کے ذریعے دینی مدارس پر کنٹرول کے لئے بھی کوئی راہ حل نکال سکے-               

ٹیگس