Mar ۰۷, ۲۰۱۸ ۱۹:۳۰ Asia/Tehran
  • ٹرمپ اور نتنیاہو کی ملاقات، اور امریکہ - اسرائیل کی فوجی مشقوں کا آغاز

امریکی صدر نے وائٹ ہاؤس میں صیہونی حکومت کے وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات میں مقبوضہ علاقوں میں اس حکومت کے مواقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ امکان ہے کہ وہ خود بیت المقدس میں امریکی سفارتخانے کھولے جانے کی تقریب میں شرکت کریں۔

ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کبھی بھی اس حد تک گہرے اور دوستانہ نہیں تھے۔ صیہونی حکومت کے وزیر اعظم امریکہ میں اسرائیل کی طاقتور حمایتی لابی امریکی اسرائیلی پبلک افیئرز کمیٹی 'آئپیک  American Israel Public Affairs Committee کے سالانہ اجلاس میں شرکت اور امریکی صدر سے ملاقات کی غرض سے واشنگٹن گئے۔ نتنیاہو کا یہ امریکی دورہ ایسے حالات میں انجام پا رہا ہے کہ صیہونی حکومت نے بھی مقبوضہ فلسطین میں امریکی فوج کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں شروع کر رکھی ہیں۔ صیہونی ذرائع نے اعلان کیا ہے کہ ان فوجی مشقوں میں دوہزار صیہونی فوجیوں کے ساتھ ڈھائی ہزار امریکی فوجیوں نے بھی شرکت کی ہے۔ یہ فوجی مشقیں امریکہ اور صیہونی حکومت کی ایک بڑی فوجی مشق بتائی جا رہی ہے۔ قدس کے تعلق سے اسرائیل کے لئے واشنگٹن کی سیاسی حمایت اور اس کے ساتھ امریکہ کا وسیع فوجی تعاون، اس غاصب حکومت کو ہری جھنڈی دکھانے کے مترادف ہے تاکہ وہ فلسطینیوں اور عرب ملکوں پر اپنی توسیع پنسدانہ پالیسیاں مسلط کرنے کے لئے سیاسی فضا ہموار کرے اور نئی جنگیں شروع کرے۔ 

فلسطین کی حمایت کرنے والے اسکاٹ لینڈ کے ایک سرگرم کارکن "میک ناپیہ" نے امریکی حکومت کے موقف خاص طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کے ذریعے صیہونی حکومت کی حمایت کا ذکرکرتے ہوئے کہا ہے کہ مقبوضہ فلسطین میں صیہونی حکومت کے جارحانہ حملوں میں شدت اور اس میں وسعت آنے کی ایک وجہ، یہی حمایتیں ہیں۔ 

ٹرمپ کے دور حکومت میں صیہونی حکومت کے لئے امریکی حمایت میں شدت صرف اقتصادی اور سیاسی میدانوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ فوجی میدانوں میں بھی اس حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ صیہونی حکومت کے لئےامریکہ کی حمایت ایک دائمی پالیسی ہے جو تمام امریکی صدور کی جانب سے ماضی میں بھی کم و بیش جاری رہی اور ان کی ترجیحات میں شامل تھی۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ بعض امریکی صدور نے صیہونی حکومت کی خوشامد اور چاپلوسی کے لئے دیگر امریکی صدورسے سبقت لینا چاہی ہے اور موجودہ صدر ٹرمپ ان ہی صدور میں سے ایک ہیں۔ بلا شبہ صیہونی لابی کا اثر و رسوخ امریکی معاشرے میں بہت زیادہ ہے اور اسی بناء پر امریکی صدور ماضی سے زیادہ اس لابی کی حمایت کرکے اندرون ملک اپنی پالیسیوں اور امریکہ کی خارجہ پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے درپے ہیں۔ 

اسی سلسلے میں ڈونلڈ ٹرمپ بھی مختلف طریقوں سے صیہونیوں کے ساتھ اپنی محبت و عقیدت کے اظہار کے درپے ہیں اور آئیپیک کے اجلاسوں اور اسرائیلی حکام کے ساتھ ان کی ملاقاتوں میں چاپلوسی کی باتیں اسی حقیقت کی تائید ہیں۔ صیہونی حکومت کی توسیع پسندی میں ایسے میں شدت آئی ہے کہ امریکہ نے حالیہ برسوں میں اسرائیل کی سالانہ بلاعوض امداد میں اضافہ کردیا ہے اور اس کے توسیع پسندانہ اخراجات پورے کرنے کے لئے اپنی آمادگی کا اعلان کیا ہے۔

صیہونی حکومت کی توسیع پسندی میں شدت ایسی حالت میں آئی ہے کہ امریکہ نے حالیہ برسوں میں اسرائیل کے لئے سالانہ بلاعوض امداد میں اضافے کے لئے اپنی آمادگی کا اعلان کیا ہے۔ امریکہ کی طرف سے اسرائیلی حکومت کو سالانہ تین ارب ڈالر بلاعوض امداد دی جاتی ہے جس کا بڑا حصہ فوجی ساز وسامان پرخرچ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ سالانہ اربوں ڈالر آسان شرائط پراسرائیل کوقرض دیتا ہے جن سے اسرائیلی حکومت مغربی ملکوں کے جدیدترین اسلحے خریدتی ہے۔

اگرچہ صیہونی حکومت کے گذشتہ سمجھوتوں کے مطابق امریکہ اسرائیل کو سالانہ تین ارب ڈالر کی امداد دیتا ہے لیکن نئے سمجھوتے کی بنیاد پر امریکہ ، اسرائیل کو اپنی تاریخ کا سب سے بڑا دس سالہ فوجی امداد کا نیا پیکج فراہم کرے گا-  یہ ایسی حالت میں ہے کہ نئے مالی پیکج کے استعمال میں اسرائیل کو کھلی چھوٹ ہوگی اور امریکی کانگریس اس رقم میں ہر سال مزید اضافہ کرے گی- اسی تناظر میں صیہونی حکومت نے امریکہ سے بلاعوض فوجی امداد میں مزید اضافے کا مطالبہ کیا ہے اور 2018 سے 2028 کے درمیانی برسوں میں بیالیس سے پینتالیس ارب ڈالر تک اضافے کا مطالبہ کیا ہے کہ جس پر امریکہ نے بھی اپنی موافقت ظاہر کی ہے- امریکہ مختلف صورتوں میں جارح اور غاصب صیہونی حکومت کو مسلح کرنے کے درپے ہے اور واشنگٹن کے اس طرح کے اقدامات گویا اپنے مظالم جاری رکھنے کے لئے صیہونی حکومت کو ہری جھنڈی دکھانے کے مترادف ہیں جن کے سبب یہ غاصب حکومت روز بروز گستاخ ہوتی جا رہی ہے-

 

 

 

 

 

ٹیگس