Mar ۰۸, ۲۰۱۸ ۱۷:۳۰ Asia/Tehran
  • سعودی ولیعہد کا دورہ برطانیہ اور جنگي جرائم کی حمایت کے لئے ہتھیاروں کی فروخت

سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کہ جن کا دورۂ برطانیہ، عوام کی شدید مخالفت کے سبب ملتوی ہوگیا تھا، آخرکار سات مارچ کو لندن پہنچے۔

الجزیرہ ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سعودی ولیعہد کا دورہ برطانیہ جنوری کے آخر یا فروری کے آغاز میں انجام پانے والا تھا جو برطانوی عوام کی شدید مخالفت اور قانون دانوں کے مطالبے پر ملتوی کر دیا گیا تھا- برطانوی پارلیمنٹ کے سترہ اراکین نے وزیراعظم تھریسا مئے کے نام اپنے ایک مراسلے میں ان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ سعودی ولیعہد کا دورۂ لندن منسوخ کردیں۔ برطانیہ کے ان اراکین پارلیمنٹ نے سعودی ولیعہد کو جنگ یمن کا خطرناک مجرم قرار دیا کہ جس کے نتیجے میں یمن میں اتنا بڑا انسانی المیہ رونما ہوا۔

ان اراکین پارلیمنٹ نے تاکید کی ہے کہ سعودی عرب میں ستّر فیصد سے زائد سزائے موت، محمد بن سلمان کے ولیعہد بننے کے بعد دی گئی ہیں۔ واضح رہے کہ برطانیہ میں سعودی ولیعہد کے دورہ لندن کی شدید مخالفت کی جا رہی ہے۔ اس وقت بھی ایسے حالات میں سعودی ولیعہد نے لندن کا دورہ کیا ہے کہ ان کے اس دورے کی مخالفت جاری ہے یہاں تک کہ سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر کو محمد بن سلمان کے دورے کے وقت ان مخالفتوں اور مظاہروں کو ختم کرنے کا مطالبہ کرنا پڑا۔ 

بلا شبہ بن سلمان کے دورہ لندن کی شدید مخالفتوں کی پہلی وجہ یمن میں آل سعود کے جرائم سے مربوط ہے۔ آئندہ بیس دنوں سے بھی کم عرصے میں، مشرق وسطی کے سب سے غریب ملک یمن کے خلاف سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے ذریعے شروع کئے گئے جارحانہ حملوں کے سلسلے اپنے چوتھے سال میں داخل ہوجائیں گے۔ اس جنگ کے نتیجے میں کئی لاکھ یمنی باشندے شہید و زخمی اور بے گھر ہوگئے جبکہ ہزاروں افراد ہیضے اور دیگر بیماریوں میں مبتلا  ہیں اور خاص طور پر بچوں کی ایسی تلخ و ناگوار تصاویر میڈیا پر شائع ہوئی ہیں جنہیں دیکھ کر دنیا کے مختلف علاقوں کے عوام ، شخصیتوں، ذرائع ابلاغ، اداروں اور تنظیموں نے سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔

وہ چیز جو آل سعود یمن میں انجام دے رہی ہے وہ انسانیت اور امن و صلح کے خلاف بربریت اور جنگی جرائم کی آشکارہ مثال ہے۔ اس بناء پر برطانیہ کے عوام کی ایک بڑی تعداد، شخصیتوں، اور تنظیموں نے مظاہرے کرکے محمد بن سلمان کے دورۂ برطانیہ کے منسوخ کئے جانے کا مطالبہ کیا  اور یہاں تک کہ اس دورے کو آل سعود کے جرائم میں برطانوی وزیر اعظم کے شریک ہونے کا مصداق قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں اخبارایڈیپنڈنٹ نے لکھا ہے کہ سعودی عرب دیگر ملکوں کے لئے بھی رنج و عذاب کا باعث بنا ہے۔ جنگ یمن میں ریاض کی فوجی مداخلت کے باعث ہزاروں افراد مارے گئے ہیں اور اس ملک میں قحط کی صورتحال ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے جنگی طیارے جان بوجھ کر عام شہریوں اور پبلک مقامات منجملہ ہسپتالوں، اسکولوں، بازاروں ، اور مسجدوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔  یمن کے خلاف جنگ کے ابتدائی دنوں سے ہی یہ حملے  محمد بن سلمان کے زیر نگرانی اور اس کی ڈکٹیشن پر انجام پائے ہیں۔  برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے نے شدید احتجاج اور تنقیدوں کے سبب بن سلمان کے دورے کو التواء میں ڈال دیا تھا لیکن آخرکار اس دورے کے انجام پانے کے حالات فراہم کردیئے۔ تھریسا مے نہیں چاہتیں کہ وہ آل سعود کے ہتھیاروں سے حاصل ہونے والی آمدنی میں، امریکی صدر ٹرمپ سے پیچھے رہ جائیں۔ ٹرمپ نے مئی 2017 میں اپنے دورۂ ریاض میں آل سعود کے ساتھ چار سو ارب کے ڈالر کے معاہدے کئے تھے کہ جن میں سے ایک سو دس ارب ڈالر ہتھیاروں کی صنعت سے متعلق تھے۔

اس وقت ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ بن سلمان کے دورۂ لندن میں بھی برطانوی حکام اور سعودی حکام کے درمیان ہتھیاروں کے بڑے معاہدے پر دستخط انجام پائیں گے تاکہ برطانیہ بھی امریکہ کے مدنظر دودھ دینے والی گائے سے بحد کافی فائدہ اٹھا سکے۔ برطانیہ اس وقت بھی اربوں پونڈ کے فوجی ہتھیار، سعودی عرب کو فروخت کر رہا ہے لیکن تھریسا مے کی حکومت چاہتی ہے کہ سعودی عرب لندن کے ساتھ ہتھیاروں کے نئے معاہدے کرے۔ بلاشبہ ہتھیاروں کے جو نئے معاہدے محمدبن سلمان کے ساتھ لندن میں انجام پائیں گے ان سےعلاقے میں مزید کشیدگی اور خونریزی بڑھے گی۔ 

اور آخر میں یہ بات کہ برطانیہ کے لئے یہ اہم نہیں ہے کہ سعودی حکمراں محمد بن سلمان ہو یا کوئی اور شہزادہ ۔ اس کے لئے صرف آل سعود کے پٹرو ڈالر اہمیت رکھتے ہیں اور اس ہدف و مقصد کوپانے کے لئے انسانی حقوق کے اقدار اور جمہوری اقدار کوئی معنی نہیں رکھتے۔ بن سلمان بھی اپنے پٹرو ڈالروں کے ذریعے مغرب کی حمایت اور اس وقت لندن کی حمایت حاصل کرنے کے درپے ہیں۔ 

             

ٹیگس