Apr ۲۵, ۲۰۱۸ ۱۷:۵۴ Asia/Tehran
  • انتہا پسندانہ نظریات سے مقابلے کے لئے عالمی سطح پر اقدامات کی ضرورت پر ایران کی تاکید

اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے سیاسی اور بین الاقوامی سیکورٹی کے امور کے ڈائریکٹر جنرل غلام حسین دہقانی نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں، عالمی امن و سلامتی کے لئے خطرہ بننے والے انتہاپسندانہ نظریات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے حکومتوں اور بین الاقوامی اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان انتہا پسندانہ نظریات کا مقابلہ کریں تاکہ جوانوں کو اس جانب جانے سے روکا جاسکے-

دہقانی نے انتہا پسندانہ خطرات کے مقابلے میں جوانوں کی حفاظت کی اہمیت پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ انتہا پسندی کی روک تھام کے لئے اور جوانوں کو منحرف کرنے والے عناصر سے مقابلے کے لئے اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ ان کی تعلیم و تربیت کے لئے سرمایہ کاری کی جائے، اسی طرح غربت کو مٹانے، امتیازی سلوک اور غاصبانہ قبضوں کے خاتمے اور بحرانی و متنازعہ صورتحال کی موثر تحقیقات کے سلسلے میں کوششیں بروئے کار لائی جائیں۔

رہبر انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے تقریبا تین سال قبل اپنے دو تاریخی خطوط میں، پہلے جنوری 2015 میں اور پھر اسی سال دسمبر کے مہینے میں ، یورپ اور شمالی امریکہ کے جوانوں کو خطاب کرتے ہوئے تشدد اور انتہا پسندی کے اصلی مرکز کی جانب توجہ دلائی ہے کہ جو مغرب کے جارحانہ رویوں میں پیوست ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی کے اس بصیرت افروز اور حیات بخش اقدام نے نئے افکار کے باب کھول دئے اور مغربی جوانوں کو مخاطب قرار دے کر تشدد اورانتہا پسندی کی حقیقی شناخت کرنے والے ذہنوں کی رہنمائی کی اور ان میں بیداری کی روشنی پیدا کی- 

امریکی پروفیسر ریچرڈ فالک کہتے ہیں یہ خط اگرچہ جوانوں کو خطاب کرکے لکھا گیا ہے تاہم یہ سب کے لئے اہمیت رکھتا ہے۔ یہ خط معاشروں کی معنوی و اخلاقی بنیادوں کے مستحکم ہونے اور پوری انسانیت کے لئے مفید واقع ہوسکتا ہے۔ 

افسوس کا مقام ہے کہ آج  ہم وسیع پیمانے پر انتہاپسندی اور تشدد کی ترویج سے پیدا ہونے والی تشویش کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ جس نے مغربی ایشیاء کے علاقے کو، مغربی ملکوں اور علاقے کے بعض عرب ملکوں منجملہ سعودی عرب کی حمایت میں جنگ کرنے والے دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے جارحانہ اقدامات کا نشانہ بنایا ہوا ہے- ایسے حالات میں سلامتی کونسل کی کمزور کارکردگی، ان تشدد آمیز اقدامات میں اضافے اور شدت پیدا ہونے کا سبب بنی ہے۔ فلسطینی قوم کی سرنوشت سے بین الاقوامی اداروں اور بعض حکومتوں کی بے توجہی اور عراق و افغانستان میں امریکہ کے جارحانہ اقدامات اور غاصب صیہونی حکومت کی بربریت کے مقابلے میں ان کی خاموشی، علاقے میں انتہا پسندی اور دہشت گردی میں تیزی آنے کا سبب بنی ہے۔ البتہ ذرائع ابلاغ اور جدید ٹیکنالوجیز کے استعمال نے بھی ان تشدد آمیز اقدامات کی ترویج میں بہت زیادہ رول ادا کیا ہے۔ 

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے دسمبر 2013 میں جنگ و تشدد سے عاری دنیا پر مبنی ایک تجویز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کی تھی جسے دو قراردادوں کی صورت میں دنیا کے ملکوں نے اتفاق رائے کے ساتھ منظور کرلیا- آج بھی ایران کی ڈپلومیسی یہ ہے کہ تمام ممالک اور امن کے حامی دھڑے، تشدد اور انتہا پسندی سے مقابلے کے لئے ٹھوس قدم اٹھائیں۔ 

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ نے بھی کل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پائیدار امن سے متعلق اجلاس میں اسی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ کی روک تھام کے لئے غاصبانہ قبضوں، غیرملکی مداخلتوں اور انتہاپسندی کی جڑوں اور وجوہات پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔               

ٹیگس