Jun ۰۲, ۲۰۱۸ ۱۸:۴۳ Asia/Tehran
  • یمن کی جنگ میں برطانیہ کی مداخلت، لندن کا اعتراف

برطانیہ کے وزیر خارجہ نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ان کا ملک بھی سعودی عرب کے ساتھ جنگ یمن میں شریک ہے۔

المسیرہ ٹیلی ویژن کے مطابق برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن نے خود اس بات کا انکشاف بھی کیا کہ جنگ یمن میں شریک فوجیں سعودی اتحاد سے نہیں بلکہ براہ راست لندن سے احکامات حاصل کرتی ہیں۔ ماہرین کےمطابق برطانوی وزیر خارجہ کے بیان کا واضح مطلب یہ ہے کہ برطانیہ، جنگ یمن کی براہ راست کمان کر رہا ہے۔ 

بورس جانسن نے کہا کہ انہوں نے حال ہی میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے بات کی ہے اور انہیں یقین دلایا ہے کہ لندن سعودی عرب کی سیکورٹی کا پابند ہے- اگرچہ لندن نے اس سے پہلے بھی سعودی عرب کو ہتھیار ارسال کرنے کا اعتراف کیا تھا لیکن اس بار اس نے اعتراف کیا ہے کہ خصوصی فوجی دستے بھی سعودی عرب بھیجے ہیں تاکہ وہ یمن کے خطرات کے مقابلے میں سعودی عرب کی حفاظت کریں- 

اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ اعترافات برطانیہ کے وزیر خارجہ کی زبان سے سنا گیا ہے۔ سعودی عرب فوجی دستے روانہ کئے جانے کے بارے میں برطانوی حکام کے یہ بیانات اور اس سے قبل امریکی حکام کے بیانات سے اس امر کی بخوبی نشاندہی ہوتی ہے کہ لندن اور واشنگٹن کا جنگ یمن میں اہم کردار رہا ہے- نومبر 2017 کے اواخر میں برطانیہ کے اخبار ڈیلی میل نے انکشاف کیا تھا کہ برطانوی فوج، سعودی فوجیوں کی ٹریننگ کے ساتھ ہی یمن کی جنگ میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ در حقیقت اس مسئلے سے یمن میں غیر انسانی جنگ جاری رکھنے کے لئے، سعودی حکومت اور اس کے شریک متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعاون کی غرض سے، برطانیہ کی کنزرویٹیو حکومت کی غیر انسانی مشارکت برملا ہوجاتی ہے- لندن نے حالیہ برسوں میں ریاض کے ساتھ اپنے فوجی اور سلحہ جاتی معاہدوں میں اضافے پر توجہ مرکوز کی ہے- سعودی عرب برطانیہ سے سب سے زیادہ ہتھیار خریدنے والا ملک ہے۔ روس کے سیاسی ماہر سرگئی سیریبروف کے بقول امریکہ اور برطانیہ نے یمن کی جنگ سے بہت زیادہ منافع کمایا ہے- 

 برطانیہ مغرب کی پالیسی جاری رکھتے ہوئے مشرق وسطی میں مغرب کے اتحادی ملکوں منجملہ سعودی عرب کو اس قسم کے ہتھیار فروخت کرکے اس  کی بقا میں براہ راست مدد اد کر رہا ہے۔  

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق برطانوی حکومت نے سعودی عرب کو فوجی ساز و سامان فروخت کر کے اسلحے کی برآمدات سے متعلق اپنے وعدوں، یورپی یونین کے مشترکہ موقف اور اسلحے کی تجارت کے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔

اس کے باوجود برطانوی حکومت اس بات کی دعویدار ہے کہ اس نے سعودی عرب کو جو ہتھیار فراہم کئے ہیں وہ یمن کے خلاف جنگ میں استعمال نہیں کئے جا رہے ہیں جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور سیفر ورلڈ نامی این جی او نے کہا ہے کہ یمن پر سعودی عرب کے حملے شروع ہونے کے بعد برطانوی حکومت نے ایک اعشاریہ پچھتر ارب پونڈ سے زیادہ مالیت کے ہتھیار سعودی عرب بھیجنے کے لئے سو سے زیادہ اجازت نامے منظور کئے۔

آسٹریا کے سیاسی ماہر باربارا ویلی کہتے ہیں کہ امریکہ اور برطانیہ، یمن میں المناک جنگ کے ذمہ دار اور جنگی مجرم ہیں- برطانیہ کی قدامت پسند حکومت ، یمن کے عام شہریوں کے قتل عام اور اس ملک کی غیر فوجی تنصیبات اور مقامات پر سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے طیاروں کی بمباری کے تعلق سے انسانی حقوق کی متعدد رپورٹیں منظر عام پر آنے اور ان حملوں کی وسیع پیمانے پر مذمت اوراندرون ملک مخالفتوں میں اضافے کے باوجود  اپنے رویے میں تبدیلی نہیں لائی ہے۔ برطانیہ کا نفاق اور دوہرا معیار، جنگ یمن کے جاری رہنے کے ساتھ ہی ماضی سے زیادہ نمایا ہوگیا ہے، اس لئے کہ ایک طرف وہ سعودی عرب کو ہتھیار اور فوج بھیج رہا ہے تو دوسری طرف یمن کے بحران کے سیاسی حل پر تاکید کر رہا ہے- 

واضح رہے کہ سعودی عرب نے امریکہ اور برطانیہ کی شہہ پر مارچ دوہزار پندرہ سے یمن کو زمینی، ‌فضائی اور سمندری جارحیت کا نشانہ بنانے کے علاوہ اس ملک کی مکمل ناکہ بندی بھی کر رکھی ہے۔ یمن پر سعودی جارحیت کا مقصد اس ملک میں اپنی کٹھ پتلی حکومت کو دوبارہ اقتدار میں لانا ہے۔ تاہم یمنی عوام اور فوج کی استقامت کے نتیجے میں اس کا ایک بھی مقصد پورا نہیں ہوسکا ہے۔

ٹیگس