امریکی علیٰحدگی کے بعد ایٹمی معاہدہ کے تحفظ کی اہمیت میں اضافہ، ولادیمیر پوتین
روس کے صدر ولادیمیر پوتین نے کہا ہے کہ ایران کے ساتھ ہونے والے جامع ایٹمی معاہدہ سے امریکہ کا نکلنا ٹرمپ حکومت کے غلط اقدامات میں سے ایک ہے اور اس غلط اقدام کے بعد اس معاہدے کے تحفظ کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔
ولادیمیر پوتین نے کہا کہ اب اس معاہدہ کے تحفظ اور مشرق وسطیٰ میں ناقابل کنٹرول کشیدگی کی روک تھام کی اہمیت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پوتین نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہونے والی حالیہ ملاقات کے بعد ایران کے ایٹمی معاہدہ سمیت بین الاقوامی مسائل کے بارے میں اپنے مواقف کو واضح طور پر پیش کیا ہے اور جامع ایٹمی معاہدہ سے متعلق امریکی موقف کی کُھل کر مخالفت کی ہے۔ روس بات چیت کو بحرانوں اور مسائل کی بہترین راہِ حل سمجھتا ہے اور اُس کا کہنا ہے کہ بہت سے بین الاقوامی مسائل بات چیت کے ذریعہ حل ہوسکتے ہیں۔
ولادیمیر پوتین مشرق وسطیٰ میں امن و سلامتی کی برقراری اور اس علاقہ میں ناقابلِ کنٹرول اقدامات کی روک تھام کے لئے ایران کے ساتھ ہونے والے ایٹمی معاہدہ کے تحفظ کو ضروری سمجھتے ہیں۔ روس نے جامع ایٹمی معاہدہ سے علیٰحدگی کے امریکی فیصلے کو بارہا تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اِس اقدام کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اِس اقدام کے نتائج امریکہ کو ہی بھگتنے چاہئیں، ایران اور بین الاقوامی برادری کو نہیں۔
اِن باتوں کے ساتھ ساتھ روس نے عملی اقدامات بھی کئے ہیں اور بین الاقوامی اُمور میں رہبر انقلاب اسلامی کے مشیر اعلیٰ اور سابق وزیر خارجہ علی اکبر ولایتی کے حالیہ دورۂ روس کے دوران روسی حکومت نے 50 ارب ڈالر کے ایک معاہدہ کا وعدہ بھی کیا۔ روسی صدر ولادیمیر پوتین نے نہ صرف سیاسی مواقف کو نشانہ نہیں بنایا بلکہ تجارت کے سلسلہ میں بھی ایٹمی معاہدہ سے امریکی علیٰحدگی پر تنقید کی ہے۔ یورپی یونین بھی ایران کو بعض ضمانتیں دینے کے لئے تیار ہے تاکہ ایران کو جامع ایٹمی معاہدہ میں باقی رہنے کی ترغیب مل سکے۔
روس اور بین الاقوامی برادری سنجیدگی کے ساتھ جامع ایٹمی معاہدہ کے تحفظ کی کوشش میں ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ وہ ایران کے خلاف ہونے والے اقدامات میں امریکہ کا ساتھ نہیں دیں گے۔ یہ بین الاقوامی معاہدہ فوجی راہِ حل پر سیاسی بات چیت کے طریقۂ کار کی کامیابی کی علامت ہے اور اسے ہر دور میں سیاسی مسائل کے حل کے لئے نمونۂ عمل بنانا چاہئے۔ جرمنی کی خارجہ تعلقات کونسل(DGAP) کے ایک تجزیہ نگار کرسچین وائپرفورڈ کا کہنا ہے کہ ”امریکہ ماحولیات سے متعلق پیرس معاہدہ سے بھی نکل چکا ہے لیکن دیگر ممالک اس معاہدہ میں باقی ہیں۔ اس طرح امریکہ خود ہی الگ تھلگ پڑ گیا ہے اور جامع ایٹمی معاہدہ کے سلسلہ میں بھی ایسا ہی ہوسکتا ہے۔“
روس، چین اور ہندوستان ابھی تک امریکہ کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں اور ان ممالک نے اعلان کیا ہے کہ وہ ڈالر کے بجائے اپنی قومی کرنسی میں ایران کے ساتھ تجارت کو جاری رکھیں گے۔ جامع ایٹمی معاہدہ کا تحفظ مذکورہ بالا ممالک اور یورپی یونین کی اصل ترجیح میں تبدیل ہوگیا ہے۔ دیگر ممالک کی طرف سے امریکہ کا ساتھ نہ دیئے جانے بلکہ مختلف ممالک کے ذریعہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ناتجربہ کارانہ موقف کا مقابلہ کئے جانے کی وجہ سے امریکہ ایران کے بارے میں نہ صرف مطلوبہ نتیجہ تک نہیں پہنچے گا بلکہ بین الاقوامی برادری میں مزید تنہائی کا شکار ہوجائے گا۔