ایٹمی معاہدے کے تحفظ کے لئے یورپ کی کوشش
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ایٹمی معاہدے کے تحفظ کے لئے ہم آہنگ اقدامات انجام پانے کی ضرورت پر عالمی اجماع پایا جاتا ہے-
ڈاکٹر جواد ظریف نے، جو جنوب مشرقی ایشیا کے ملکوں کی یونین آسیان کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شرکت کے لئے سنگاپور کے دورے پر تھے، اپنے دورے کی واپسی پر یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی سے اپنی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ فریقین نے اس ملاقات میں ایٹمی معاہدے سے ایرانی عوام کے اقتصادی فوائد سے بہرہ مند ہونے کے تعلق سے اطمئنان حاصل کرنے کے لئے، یورپی یونین اور دیگر فریق ملکوں کے اقدامات کی تفصیلات کا جائزہ لیا-
یورپی یونین کے شعبہ خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی نے بھی جمعے کو سنگاپور کی نانیانگ یونیورسٹی میں اپنی تقریر میں کہا ہے کہ تہران کے خلاف امریکا کی پابندیوں کے باوجود یورپی یونین اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی روابط بڑھانے پر مصمم ہے۔ فیڈریکا موگرینی نے جامع ایٹمی معاہدے سے امریکا کے نکل جانے کو بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی قرار دیا اور کہا کہ ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی آئی اے ای اے نے ہمیشہ اپنی رپورٹوں میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ایران نے جامع ایٹمی معاہدے کی پابندی کی ہے ۔
یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آٹھ مئی کو یک طرفہ طور پر جامع ایٹمی معاہدے سے نکل جانے کا اعلان کردیا تھا جس کی عالمی سطح پر مخالفت کی گئی ۔ امریکی حکومت نے اسی کے ساتھ ایران کے خلاف پابندیوں کا اعلان کرتے ہوئے یورپ سے مطالبہ کیا ہے کہ ایران کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی روابط منقطع کرلئے جائیں لیکن یورپی یونین کےشعبہ خارجہ پالیسی کی سربراہ نے اپنی اس تقریر میں واضح کردیا ہے کہ یورپ نہ صرف یہ کہ ایران کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی روابط ختم نہیں کرے گا بلکہ انہیں فروغ دینے پر مصمم ہے۔
ان کا یہ بیان یورپ کے لئے ایٹمی معاہدے کے تحفظ کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ ایٹمی معاہدے کا تحفظ ، ایٹمی مذاکرات کے عمل میں یورپ کی سیاسی ساکھ کے دفاع اور ایٹمی سمجھوتے کے حصول کے مترادف ہے- اس وقت یورپی طاقتوں کو یہ امید ہے کہ اپنی سفارتی حکمت عملی کے ذریعے وہ، ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکل جانے کے بعد کے مرحلے کو کامیابی سے عبور کرلیں گے- اگرچہ یہ کام دشوار نظر آرہا ہے- موگرینی کے بقول، امریکہ ان کے مقابلے میں اقتصادی ہتھکنڈہ استعمال کرنا چاہتا ہے لیکن ایٹمی معاہدے کے تحفظ کے لئے یورپ کا عزم بہت واضح ہے-
اسی سلسلے میں جرمنی کے سابق وزیر خارجہ زیگمار گیبریل کہتے ہیں کہ ہم چاہتے ہیں کہ ایٹمی معاہدے کے خلاف کئے جانے والے ہر فیصلے کے مقابلے میں اس معاہدے کی حفاظت کریں کیوں کہ اس معاہدے کی منسوخی، دنیا کے لئے ایک خطرناک پیغام کی حامل ہوگی- یورپ کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ ایٹمی معاہدے کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ اقتصادی لحاظ سے بھی کہا جا سکتا ہے کہ یورپی ممالک ایران کے ساتھ تجارتی روابط قائم کرکے ممتاز سطح پر بہرہ مند ہوئے ہیں-
یورپ کو قطعی طور پر ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کے جاری رہنے کے سلسلے میں دشواریوں کا سامنا ہے لیکن ان ساری دشواریوں کے ساتھ ہی امریکی دباؤ کے مقابلے میں مزاحمت کی قدر و قیمت سے واقف ہے- اس کے باوجود یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایران کے انتظار کا عمل لا محدود نہیں ہے کہ جو ہمیشہ جاری و ساری رہے اس بناء پر اس عمل کے جائزے مں دونکتہ اہمیت کا حامل ہے۔
پہلا نکتہ یہ ہے ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکل جانے کے بعد اس معاہدے کے تحفظ اور اس پر عملدرآمد کے لئے یورپی فریق صاف و شفاف اور ٹھوس ضمانت فراہم کریں
اور دوسرا نکتہ وقت کا تعین ہے یعنی مذاکرات انجام پانے کی مدت کا تعین اور معاہدے پر قطعی عملدرآمد کے وقت کا تعین ہے۔ اس وقت ایران کی بعض اقتصادی سرگرمیاں مذاکرات کے نتیجے میں ٹھپ پڑی ہوئی ہیں۔ایسی صورتحال میں موگرینی کا بیان ممکن ہے دوپہلو کا حامل ہو اس کا ایک پہلو ایران کے ساتھ ٹھوس تعاون جاری رکھنے کے بارے میں ہو اور اس کا دوسرا پہلو یورپ کی جانب سے ممکنہ طور پر امریکہ کی پیروی کا حامل ہو کہ جس کا نتیجہ، ایران کے ساتھ تعاون میں وقت کا ضیاع اور موقع گنوانا ہے- اور ایسا کرنے کی صورت میں یورپ کو ہرگز فائدہ نہیں پہنچے گا-