سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کے حامیوں کی گرفتاری پر یورپی یونین کی تنقید
سعودی عرب میں شہری و سماجی شخصیتوں کی گرفتاری کا سلسلہ جاری رہنے پر یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی نے اس سعودی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے سعودی حکام سے وضاحت طلب کی ہے-
سعودی فوجیوں نے اس ملک میں نئی گرفتاریوں کی لہر میں اکتیس جولائی کو سمربدوی اور نسیمہ السادہ سمیت خواتین کے حقوق کے حامی کئی سماجی کارکنوں کو گرفتار کرلیا ہے- سمربدوی انسانی حقوق کے میدان میں فعال وہ خاتون ہیں جنھیں دنیا، سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کی حمایت میں سرگرم شخصیت کےعنوان سے پہنچانتی ہے- اور انھیں دوہزار بارہ میں امریکہ کا بہادر خاتون نامی بین الاقوامی ایوارڈ بھی مل چکا ہے اور نسیمہ السادہ کہ جنھوں نے اس سے قبل خواتین کے حقوق کے دفاع کی تنظیم میں شامل ہونے کا اعلان کیا تھا، کا تعلق سعودی عرب کے الشرقیہ علاقے سے ہے - ان دونوں خواتین کے علاوہ بھی بہت سے سماجی کارکنوں اور سعودی حکومت کی پالیسیوں کے مخالفین کو گذشتہ ہفتوں میں گرفتار کیا گیا ہے-
ان گرفتاریوں کے خلاف بین الاقوامی سطح پر آواز اٹھ رہی ہے- خاص طور پر ایسی صورت میں کہ جب سعودی عرب میں حالیہ ایک برس میں اقتدار پر محمد بن سلمان کی گرفت مضبوط ہونے کے بعد ان کی جانب سے مغربی ممالک کے مطالبے پر سیاسی ، ثقافتی اور سماجی میدانوں میں اصلاحات انجام دینے کا نعرہ لگایا گیا اور اقتصادی و سماجی اصلاحات کا وعدہ کیا گیا - بن سلمان نے ایک نمائشی اقدام کے تحت سعودی عرب کی خواتین کو ڈرائیونگ کرنے ، گھر سے باہر نکلنے، تنہا سفر کرنے۔ پبلک مقامات پر آنے جانے اور مختلف اقتصادی و سماجی شعبوں میں کام کرنے کی اجازت جیسی آزادی دینے کا فیصلہ کیا ہے- اس فیصلے کا خواتین اور سماجی کارکنوں نے خیرمقدم کیا تاہم ابھی زیادہ وقت نہیں گذرا تھا کہ سعودی حکومت نے سماجی کارکنوں اور شخصیتوں کو سرکوب کرکے اور انھیں جیل میں ڈال کر اپنے تمام نمائشی اقدامات پر پانی پھیر دیا- رپورٹ کے مطابق اس وقت سعودی عرب میں تقریبا تیس ہزار سے زیادہ سماجی کارکن اور شخصیتیں جیلوں میں ہیں- اس سلسلے میں سعودی عرب کے معروف صحافی جمال خاشقجی کا کہنا ہے کہ محمد بن سلمان نے سخت گیر سماجی پابندیوں کو کم کرکے خاص طور سے خواتین سے ڈرائیورنگ کی پابندی اٹھا کر مغرب کی توجہ اپنی جانب مبذول کرلی ہے- درایں اثنا وہ سیاسی آزادی کو شدت سے کچل رہے ہیں اور عوام سے اظہارخیال کا حق چھیں لیا ہے-
ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت بہت سے بین الاقوامی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اپنے بیانات میں سعودی عرب میں سماجی شخصیتوں کی گرفتاری پرتشویش کا اظہار کیا ہے اور ان کی آزادی کا مطالبہ کیا ہے- ان میں بہتوں کا اعتراف ہے کہ سعودی عرب دنیا میں انسانی حقوق کی پامالی کرنے والا ایک سب سے بڑا ملک ہے اس کے باوجود سعودی حکام کہ جنھیں واشنگٹن کے حکام کی حمایت حاصل ہے بدستور سعودی عرب کے اندر اور باہر انسانیت دشمن پالیسیاں جاری رکھے ہوئے ہیں-
اس سلسلے میں امریکہ کی امن تحریک کے رہنما میڈیا بنجامین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ حکومت کی خاموشی اور اربوں ڈالر کے ہتھیاروں کی فروخت کے معاہدوں نے سعودی عرب کو انسانی حقوق کی پامالی کے سلسلے میں بے پرواہ کردیا ہے-
اگرچہ سعودی عرب میں گرفتاریوں اور یمن میں ان کے جرائم سے پتہ چلتا ہے کہ آل سعود کو انسانی حقوق کی ذرہ برابر بھی پرواہ نہیں ہے لیکن ایسا نظر آتا ہے کہ اگران پالیسیوں کا سلسلہ جاری رہا تو بن سلمان کمزور ہوجائیں گے-