شام میں دہشت گردوں کی شکست پر ٹرمپ کا اظہار تشویش
شامی فوج نے گذشتہ دو برسوں کے دوران اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کرشام کے مختلف علاقوں میں دہشت گرد گروہوں کے ساتھ جنگ میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں-
شام کے مختلف علاقوں سے دہشت گرد عناصر شامی فوج کے ہاتھوں شکست کھاکر اس ملک کے شمال مغربی صوبے ادلب کی جانب فرار کرنے پر مجبور ہوگئے- اس وقت شامی فوج اور اس کے اتحادی عناصر خود کو ادلب کو آزاد کرانے کے لئے تیار کر رہے ہیں کہ جو دہشت گردوں کا آخری اڈہ ہے۔ اس مسئلے نے مغرب خاص طور پر امریکہ کو جو دہشت گردوں کا اصلی حامی ہے، تشویش میں مبتلا کردیا ہے-
اسی سلسلے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کی رات کو ایک پیغام میں، کہ جو شام میں دہشت گردوں کی مکمل شکست پر ان کو سخت تشویش لاحق ہونے کا آئینہ دار ہے، کہا ہے کہ شامی فوج کو ادلب پر حملہ نہیں کرنا چاہئے- ٹرمپ نے اپنے ٹوئیٹر پیج پر لکھا ہے کہ شام کے صدر بشار اسد کو صوبہ ادلب پر بے دریغ حملہ نہیں کرنا چاہئے- ٹرمپ نے دعوی کیا ہے کہ ادلب پر فوجی حملہ المناک ہوسکتا ہے- ٹرمپ نے اس پیغام میں اسی طرح ایران اور روس سے بھی درخواست کی ہے کہ بقول ان کے، اس بڑی غلطی کا حصہ نہ بنیں- امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک، شامی فوج کے ادلب پر حملے کے پیش نظر اس کے خلاف پروپیگنڈہ کر رہے ہیں- ان ممالک نے دھمکی دی ہے کہ ادلب پر شامی فوج کے توسط سے کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کی صورت میں وہ شام پر حملہ کردیں گے- اسی سلسلے میں دہشت گرد گروہوں کی کوشش ہے کہ ادلب میں شامی فوج کا آپریشن شروع ہونے سے قبل ہی، شامی فوج کے توسط سے کیمیائی حملے کے بارے میں پروپیگنڈہ کرکے، مغربی ملکوں کے لئے شام پر حملہ کی راہ ہموار کریں-
روس کی وزارت دفاع نے پچیس اگست کو اعلان کیا تھا کہ امریکہ ، فرانس اور برطانیہ کیمیائی حملے کا ڈھونگ رچاکر دوبارہ شام پر حملے کی فکر میں ہیں- واضح رہے کہ ان تینوں ملکوں نے اپریل 2018 میں بھی شامی فوج کے توسط سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا بہانہ بناکر شام کے بعض علاقوں پر حملہ کیا تھا ۔ ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ شامی فوج کے ذریعے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا الزام لگاکر یہ ممالک رائے عامہ کی توجہ منحرف کرنے اور مغرب کے جارحانہ اقدامات کو جائز اور قانونی ظاہر کرنے میں کوشاں ہیں- امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو شام میں دہشت گردوں کی شکست سے شدید تشویش لاحق ہے-
واضح رہے کہ شام کا بحران دو ہزار گیارہ سے جاری ہے جس کے نتیجے میں دہشت گردوں کے ہاتھوں اب تک لاکھوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں اور زخمی اور بے گھر ہوئے ہیں تاہم امریکہ، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب اپنے بعض دیگر اتحادیوں کے تعاون سے آج بھی شام کے صدر بشار اسد کے مخالفین اور دہشت گردوں کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔
امریکہ اور بعض یورپی ممالک اپنے علاقائی اتحادیوں کے تعاون سے ہمیشہ شام میں پہلے سے طے شدہ اہداف اور دمشق حکومت کی سرنگونی کے درپے رہے ہیں۔ امریکہ نئے مشرق وسطی کے تناظر میں اسرائیل کے مفادات کے تحفظ کے لئے اکیسویں صدی کی ابتداء سے ہی خطے میں یورپ کی جانب رجحان رکھنے والے نظام کو بر سر اقتدار لانے کے درپے رہا ہے تاکہ بیسویں صدی کے ماحول کو ختم کر کے، اور خطے کی رائے عامہ کے اذہان سے صیہونیت مخالف استقامت کا خیال نکال کر، صیہونی حکومت کی حمایت کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ صیہونزم کے خلاف فرنٹ لائن پر موجود شام اور لبنان جیسے ممالک کو سنہ دو ہزار گیارہ سے اب تک یورپ اور امریکہ کی جانب سے مختلف طرح کی سازشوں کا سامنا ہے۔
اس وقت شام میں امریکہ اور اس کے یورپی اور عرب اتحادیوں کے پروردہ دہشت گردوں کی پوزیشن مکمل طور پر کمزور ہوگئی ہے اور شام کی حکومت اپنے اتحادی ملکوں یعنی روس، ایران اور حزب اللہ کے ساتھ مل کر صوبہ ادلب میں اپنی کامیابیوں کو تکمیلی مراحل تک پہنچانے میں کوشاں ہے- یہ مسلمہ امر ہے کہ شام کے خلاف مغرب کی دھمکیاں بھی دمشق کے عزم کو متزلزل نہیں کرسکتی ہیں-