استنبول میں سعودی عرب کے قونصل جنرل کے رویے پر ترک صدر کی تنقید
ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے سعود عرب کے مخالف صحافی کے قتل کیس کے تعلق سے استنبول میں سعودی قونصل جنرل کے رویے کو ناقابل فہم اور مشکوک قرار دیا ہے-
رجب طیب اردوغان نے آل سعود حکومت پر تنقید کرنے والے صحافی جمال قاشقجی کے قتل کیس کے بارے میں نامہ نگاروں کے اجتماع میں کہا کہ سعودی قونصل خانے کی چھان بین کے دوران ، سعودی قونصل جنرل محمد العتیبی کا رویہ سمجھ سے باہر اور مشکوک تھا- ترکی کے صدر نے کہا کہ استنبول میں سعودی قونصل جنرل نے اس قونصل خانے میں غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے ایک گروہ کو بلاکر انہیں بجلی کے میٹر دکھائے۔ اور ان کے اس طرزعمل نے ترکی کی سیکورٹی فورسیز کو تعجب میں ڈال دیاہے-
اس سے پہلے بھی انقرہ کے حکام نے ترکی کی سیکورٹی فورسیز کے ساتھ استنبول میں سعودی قونصل جنرل کی جانب سے تعاون نہ کرنے پر تنقید کی تھی۔ درحقیقت سعودی قونصل خانے کے بعض کمروں کی تلاشی کی، سیکورٹی فورسیز اور تحقیقاتی ٹیموں کو اجازت نہ دینا، استنبول میں سعودی سیکورٹی فورسیز کا اس قتل کیس میں تعاون سے انکار کرنے کے مترادف ہے۔
سعودی عرب کے ساتھ ترکی کی محاذ آرائی، اور سعودی بادشاہ اور اس کے حامیوں خاص طور پر امریکہ کی پوزیشن کمزور کرنے کی ترک حکام کی کوششوں سے قطع نظر، ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ انقرہ کے حکام خاص طور پر ترکی کے صدر نے مشرق وسطی میں امریکہ اور سعودی عرب کی پوزیشن کو خراب کرنے کے مقصد سے اپنی کوششیں دوگنا کردی ہیں- اور یہ کوششیں ، سعودی عرب کی جانب سے استنبول میں سعودی قونصل خانے میں جمال خاشقجی کے قتل کا اعتراف کئے جانے کے بعد عملی طور پر نئے مرحلے میں داخل ہوگئی ہیں-
واضح رہے کہ دو اکتوبر کو سعودی صحافی جمال خاشقجی جو آل سعود حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے تھے، ترکی کے شہر استنبول میں سعودی قونصل خانے میں جانے کے بعد لاپتہ ہو گئے اور اسی دن بہت سے ذرائع ابلاغ نے یہ خبردے دی تھی کہ انہیں سعودی حکومت کے کارندوں نے قونصل خانے کے اندر قتل کر دیا ہے-
تاہم سعودی حکام اسی بات پر مصر تھے کہ جمال خاشقجی اپنا دفتری کام انجام پانے کے بعد استنبول میں واقع قونصل خانے سے باہر چلے گئے تھے۔ لیکن اٹھارہ دنوں کے بعد کل بیس اکتوبر کو سعودی عرب نے سرانجام اس بات کا اعتراف کر لیا کہ آل سعود حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والے صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں ہی قتل کیا گیا تھا۔ سعودی عرب کے اٹارنی جنرل نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ابتدائی تحقیقات میں پتہ چلا ہے کہ جمال خاشقجی کا قونصل خانے کے اندر موجود لوگوں سے جھگڑا ہوا جس کے دوران انہیں قتل کر دیا گیا-
خاشقجی کے قتل کی تصدیق کے بارے میں سعودی حکومت کا اس طرح کا بیان یہ ثابت کرتا ہے کہ سعودی عرب امریکا کے ساتھ مل کر اس کیس کواس طرح سے ڈیل کرنا چاہتا ہے کہ خاشقجی کے قتل میں سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کے ملوث ہونے پر پردہ ڈال دیا جائے-
جمہوریہ آذربائیجان کے مصنفین کی انجمن کے سربراہ قربان جرائیل کہتے ہیں کہ سعودی مخالف صحافی کا قتل، آل سعود کی حمایت میں امریکہ کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ یہ حمایتیں ایسے میں کی جار ہیں ہیں کہ سعودی حکام نے داعش اور القاعدہ جیسے دہشت گرد گروہوں کو وجود میں لانے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
جرمن جریدے اشپیگل نے بھی بیس اکتوبر کے شمارے میں ایف بی آئی کے ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کا یہ مطالبہ تھا کہ جمال خاشقجی کو وحشیانہ طریقے سے مارا جائے- مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ استنبول میں سعودی قونصل خانے کے حکام کا ترکی کے حکام کے ساتھ تعاون نہ کرنا ، انقرہ کے حکام کو جمال خاشقجی کے کیس کے مسئلے میں اپنی دھمکیوں کو عملی جامہ پہنانے میں مزید پرعزم کرسکتا ہے-