سعودیوں کے پٹرو ڈالر ہتھیانے کی ٹرمپ کی کوششیں
چند ہفتوں کے انتظار کے بعد آخرکار امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے، سعودی مخالف صحافی جمال خاشقجی قتل کیس میں سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کے ملوث ہونے پر مبنی رپورٹوں کو مسترد کرتے ہوئے ایک بیان میں ریاض کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا ہے-
اس بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی انٹلی جینس ایجنسی، سی آئی اے خاشقجی قتل کیس کے بارے میں معلومات اکٹھ کر رہی ہے تاہم اس بات کا قوی امکان پایا جاتا ہے کہ وہ اس قتل سے آگاہ نہیں تھے۔ بہرحال ٹرمپ نے سعودی عرب کے ولیعہد پر کسی بھی قسم کی تنقید کرنے سے اجتناب کیا ہے اور اس کی وجہ وہ اپنے دورۂ ریاض میں سعودی عرب کے ساتھ گذشتہ سال ہونے والے بھاری معاہدے قرار دے رہے ہیں-
یہ بیان ایسی حالت میں جاری ہوا ہے کہ امریکی رائے عامہ اور اقوام عالم نے، سعودی مخالف صحافی جمال خاشقجی قتل پر سخت غم وغصے کا اظہار کیا ہے۔ تقریبا دنیا کے بیشتر ممالک کا اس بات پر یقین ہے کہ محمد بن سلمان اس قتل کے واقعے میں ملوث ہیں اور ان کے حکم سے ترکی میں واقع سعودی قونصل خانے میں خاشقجی کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے ہیں- یہاں تک کہ امریکی انٹلی جینس سی آئی اے نے بھی انکشاف کیا ہے کہ خاشقجی کے قتل کا حکم سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے دیا تھا۔
امریکی اراکین کانگریس بھی سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت روکے جانے، یمن میں قتل عام روکنے لئے ریاض پر دباؤ بڑھانے اور حتی سعودی ولیعہد کی واشنگٹن کی جانب سے حمایت بند کئے جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں- اس کے باوجود ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ ٹرمپ اکیلے ہی عالمی احتجاجات و اعتراضات کے سامنے سعودیوں کے سرکچلنے والے اقدامات اور سعودی ولیعہد کی علاقائی مہم جوئی کے مقابلے میں ڈٹ جانا چاہتے ہیں۔ ٹرمپ کے اس اقدام پر امریکی کانگریس میں خود اس کی پارٹی کےافراد میں ناراضگی پائی جاتی ہے۔
امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر باب کورکر نے اپنے ٹوئیٹ میں، سعودی عرب کے لئے ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے یہ امید نہیں تھی کہ وائٹ ہاؤس ایک دن، سعودی ولیعہد کے تعلقات عامہ کے محکمے میں تبدیل ہوجائے گا- ایک اور رپیپلیکن سینیٹر رنڈ پال نے اس بیان پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے مکمل اطمئنان ہے کہ یہ بیان پہلے سعودیوں کا ہے پھر امریکیوں کا ہے-
ٹرمپ نے مغربی ایشیا میں " فرسٹ سعودی عرب" کی جو پالیسی اپنائی ہوئی ہے وہ، بڑے بحرانوں اور مشکلات پر منتج ہوئی ہے۔ بن سلمان کے لئے وائٹ ہاؤس کی غیر مشروط حمایت کے سبب ہی، اس وقت یمن جیسے غریب عرب ملک میں انسانی المیہ رونما ہو رہا ہے، تو دوسری جانب اس نے قطر کا محاصرہ کر رکھا ہے، سعودی عرب نے لبنانی وزیر اعظم کو ایک اغوا کی کاروائی کی مانند، استعفے پر مجبور کیا،اور آخرکار ایک مخالف صحافی کو ترکی کے شہر استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں بے دردی سے قتل کردیا۔ یہ سارے واقعات منگل کے روز ٹرمپ کی جانب سے جاری کئے جانے والے بیان سے قبل انجام پاچکے ہیں۔ اس بناء اس بات کی امید رکھی جا سکتی ہے کہ امریکی صدر کی طرف سے سعودی عرب کو چھوٹ دیئے جانے کے باعث، سعودی عرب کے اعلی حکام کے ہاتھوں اس سے زیادہ ہولناک واقعات رونما ہوسکتے ہیں۔ یہ امریکی رویہ اس بات کا آئینہ دار ہے کہ وہ اپنے تمام اخلاقی اور سیاسی اقدار کو سعودیوں پر نچھاور کرکے اس کے پٹرو ڈالروں کو ہتھیانا چاہتا ہے-