Nov ۲۲, ۲۰۱۸ ۱۶:۵۲ Asia/Tehran
  • سعودی حکومت کے ساتھ نرم رویے پر امریکی سینیٹروں کی ٹرمپ پر کڑی تنقید

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سعودی مخالف صحافی جمال خاشقجی کے قتل کیس میں سعودی عرب کے ولیعہد محمد بن سلمان کے کردار سے چشم پوشی اور نرم رویہ اختیار کئے جانے پر، بہت سے اراکین امریکی کانگریس نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔

جمال خاشقجی، دو اکتوبر کو ترکی کے شہر استنبول میں سعودی قونصل خانے میں داخل ہوئے تھے جس کے بعد سے ان کا کوئی پتہ نہیں چلا ۔ سعودی حکومت نے جعمہ انیس اکتوبر کو اٹھارہ دن کے سکوت اور اس خبر کو جھٹلانے کے بعد آخرکار عالمی برادری کے دباؤ کے نتیجے میں اس قتل کا اعتراف کیا کہ خاشقجی کو ترکی کے شہر استنبول کے قونصل خانے میں قتل کیا گیا ہے-

ٹرمپ، خاشقجی قتل کیس کے بارے میں، سعودیوں کو زیادہ سے زیادہ دوہنے والی گائے کی حیثیت سے دیکھ رہے ہیں۔ اسی سلسلے میں امریکی صدر نے بدھ کے روز، جمال خاشقجی قتل کے باعث سعودی عرب کے خلاف ہونے والی تنقیدوں کے مقابلے میں، سعودی عرب کی حمایت کا اعلان کیا- ٹرمپ نے ایک ٹوئیٹ میں لکھا کہ امریکہ تیل کی قیمت میں کمی پر سعودی عرب کا شکریہ ادا کرتا ہے لیکن بہتر ہے کہ اس کی قیمت میں اسی طرح کمی آتی رہے-

باوجودیکہ خاشقجی کے قتل کا حکم صادر کرنے کا الزام سعودی ولیعہد محمد بن سلمان پر عائد کیا گیا ہے پھر بھی ٹرمپ نے سعودی عرب کی حمایت جاری رکھنے کے اپنے فیصلے کو تیل کی قیمت میں کمی سے مربوط کیا ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے اپنی تحقیقات میں اس نتیجے پر پہنچی ہےکہ خاشقجی کا قتل بن سلمان کے حکم سے انجام پایا ہے۔ قتل کی اس خبر نے، کہ جس کی بنیاد پر ٹرمپ بھی دوہرا موقف اختیارکرنے پر مجبور ہوگئے، سعودی عرب کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ درحقیقت اس وقت امریکی کانگریس خاص طور پر سینٹ کے اراکین، سی آئی کی رپورٹ کے پیش نظر اس قتل کے تمام پہلوؤں خاص طور پر محمد بن سلمان کے اس میں ملوث ہونے کو واضح کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں- اس سلسلے میں امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر باب کورکر Bob Corker اور ڈموکریٹ کے سینئر سینیٹر باب مننڈز Bob Menendez نے ٹرمپ کو ایک خط ارسال کرکے خاشقجی قتل میں، محمد بن سلمان کے براہ راست اور یا بالواسطہ کردار کی حقیقت واضح ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کے باوجود ٹرمپ ان مطالبات پر کوئی توجہ نہیں دے رہے ہیں اور صرف وہ سعودی حکومت کے ساتھ تعلقات میں اپنے اقتصادی مفادات اور تحفظات کی بنیاد پر عمل کر رہے ہیں- سعودی حکومت کے ساتھ طے پانے والے عظیم معاہدوں کے پیش نظر، ٹرمپ کے لئے جو چیز سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کا معیار ہے، صرف فائدہ حاصل کرنا اورامریکہ میں روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہے۔ 

ٹرمپ نے اس بارے میں کہا کہ " گذشتہ سال سعودی عرب کے دورے میں تفصیلی مذاکرات کے بعد، اس ملک نے امریکہ میں چار سو پچاس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ اور یہ وہ مسئلہ ہے جس نے روزگار اور حیرت انگیز معاشی ترقی کے لاکھوں مواقع پیدا کئے ۔ اگر ہم احمقانہ طور پر ان معاہدوں کو منسوخ کردیں تو روس اور چین اس سے بہت زیادہ فائدہ اٹھائیں گے"- اس کے باوجود ٹرمپ کے موقف پر امریکی کانگریس کے اراکین نے شدید تنقید کی ہے۔ درحقیقت بعض امریکی قانون سازوں کا خیال ہے کہ ٹرمپ جو سعودی حکومت کی مذمت کے بجائے ایران پر لفظی حملے کر رہے ہیں اس سے انسانی حقوق کے دفاع کے سلسلے میں اس کے ہمیشگی کے دعوے اور امریکہ کے لئے آبرو باقی نہیں بچی ہے-     

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک نئے پیغام میں کہا ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان کو جمال خاشقجی کے قتل کے منصوبے کا پہلے سے علم ہونے کا امکان موجود ہے لیکن اس کے باوجود امریکہ سعودی عرب کا مضبوط پارٹنر رہے گا اس لئے کہ سعودی عرب ایران کے خلاف امریکہ کا اہم ساتھی اور تیل مہیا کرنے والا اہم ملک ہے. اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک بیان میں بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کہا تھا کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل پر سی آئی اے نے جو تحقیقات کیں اس کا نتیجہ قبل از وقت ہے۔

واضح رہے صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق امریکی خفیہ ایجنسی (سی آئی اے) نے انکشاف کیا ہے  کہ خاشقجی کے قتل کا حکم سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے دیا تھا اور قتل سے قبل امریکہ میں تعینات سعودی سفیر خالد بن سلمان نے مقتول صحافی کو فون کرکے سعودی سفارت خانے جانے پر آمادہ کیا تھا۔ جس پرٹرمپ نے بیان دیا تھا کہ جلد ہی جمال خاشقجی کے قاتلوں کا تعین کریں گے، ممکن ہے قتل کا حکم سعودی پرنس نے دیا ہو۔

سی آئی اے کے ذریعے اس بات کا انکشاف ہونے کے بعد کہ خاشقجی قتل میں سعودی ولیعہد براہ راست ملوث ہیں، ٹرمپ کی جانب سے اس کی تردید پر امریکہ کے ڈیموکریٹ اراکین کانگریس اور سینیٹروں اور ریپبلکن سینیٹروں نے اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

امریکی سینیٹ کی انٹیلی جینس کمیٹی کے نائب سربراہ مارک وارنر نے مخالف صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں سعودی عرب کو ذمہ دار قرار نہ دیئے جانے کو انسانی حقوق اور آزادی بیان نیز آزادی صحافت کے مسائل میں وائٹ ہاؤس کے پیش پیش رہنے کے عزم سے پسپائی کا ایک نمونہ قرار دیا ہے۔ ایک اور ڈیموکریٹ سینیٹر ڈیانے فینس ٹئین نے بھی کہا ہے کہ سعودی عرب کے لئے امریکی حمایت بند کرانے کی کوششوں کے دائرے میں وہ سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت اور سعودی عرب کی امداد سے متعلق سینیٹ میں ووٹنگ کے دوران مخالفت میں ووٹ دیں گے۔

سینیٹر ران وائیڈن نے بھی کہا ہے کہ امریکی سی آئی اے اگر خاشقجی کے قتل کے بارے میں اپنی رپورٹ جاری نہیں کرتی تو آئندہ ہفتے اس رپورٹ کو کانگریس میں پیش کئے جانے پر سی آئی اے کو مجبور کرنے کے لئے بل پیش کیا جائے گا۔ امریکہ کے ڈیموکریٹ اراکین کانگریس کے اس قسم کے بیانات کے باوجود امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپیؤ نے ریاض کے ساتھ واشنگٹن کے تعلقات جاری رکھے جانے کی ضرورت پر تاکید کی ہے۔ دوسری جانب امریکہ کے ریپبلکن سینیٹروں نے بھی سعودی عرب کی حمایت میں امریکی صدر ٹرمپ کے بیان پر ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ ایک ریپبلکن سینیٹر مارکو روبیو نے مخالف صحافی جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل جیسے وحشیانہ اقدامات کو واشنگٹن کی جانب سے جارحانہ پالیسیوں کی حمایت کا نتیجہ قرار دیا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی صدر پر اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ مقتول سعودی صحافی کے قتل کا حکم سعودی ولیعہد بن سلمان نے دیا تھا لیکن سعودی عرب کے ساتھ ہونے والی ڈیل کی وجہ سے اب ٹرمپ، محمد بن سلمان کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 

  

ٹیگس