Dec ۱۵, ۲۰۱۸ ۱۳:۰۸ Asia/Tehran
  • سوئیڈن مذاکرات کا اختتام اور شکست خوردہ سعودی اتحاد کی ناکامیاں

یمن کے امن مذاکرات کا چوتھا دور کہ جو چھ دسمبر سے یمنی فریقوں کے درمیان، یمن کے امور میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے خصوصی نمائندے مارٹین گریفتھس کی صدارت میں اسٹاک ہوم میں شروع ہوا تھا، جمعرات کو ایسے میں ایک بیان جاری کرکے ختم ہوگیا کہ خبری ذرائع نے یمن پر سعودی اتحاد کے حملوں میں شدت کی خبر دی ہے-

یمن پر سعودی اتحاد کے حملوں میں شدت ایسی حالت میں آئی ہے کہ سوئیڈن کے امن مذاکرات کے آخری دن یمنی گروہوں نے، اقوام متحدہ کے زیرنگرانی الحدیدہ بندرگاہ میں جنگ بندی کے قیام اور اس بندرگاہ کے لئے انسان دوستانہ امداد ارسال کرنے پر اتفاق کیاہے- اس درمیان سوئیڈن امن مذاکرات کے تعلق سے قابل غور نکتہ امریکہ کی مکارانہ چالیں ہیں کہ جس نے سیاسی مبصرین کی توجہ اس جانب مبذول کردی ہے کہ امریکہ، یمن کے خلاف سعودی عرب کے حملے جاری رکھنے کے لئے پروپگنڈوں اور سازشوں میں مصروف ہے- امریکی وزارت خارجہ نے اسٹاک ہوم مذاکرات کے سلسلے میں ایک بیان جاری کرکے، مسئلے کو اس نوعیت سے پیش کرتے ہوئے کہ بہت سے جزئی مسائل پر اتفاق رائے ہوگیا ہے ابھی اس سلسلے میں مزید مذاکرات اور تبادلۂ خیال کی ضرورت ہے، گویا ایک طرح سے سعودی اتحاد کو یمن کے خلاف جارحانہ حملے جاری رکھنے اور سوئیڈن کے امن سمجھوتے کی خلاف ورزی کرنے کے لئے ہری جھنڈی دکھا دی ہے- سوئیڈن امن مذاکرات کے تعلق سے امریکہ اور سعودی جارح اتحاد کا رویہ، اس امر کا آئینہ دار ہے کہ سعودی جارح اتحاد اور اس کے حامی عناصر سوئیڈن امن مذاکرات کے نتائج سے، کہ جو یمن کی تحریک انصاراللہ کی ہمت سے یمن کےعوام کے لئے سیاسی و انسانی نتائج کا حامل ہوگا، راضی نہیں ہیں اور وہ سو‏ئیڈن امن مذاکرات کے دوران طے پانے والے سمجھوتے کے عملی ہونے کی راہ میں روڑے اٹکانے کے درپے ہیں- آخرکار چار سال تک یمن کی تحریک انصاراللہ نے استقامت و پائیداری کا مظاہرہ کرکے اور ایک ہفتے تک مذاکرات انجام دینے کے بعد سعودی اتحاد اور عالمی برادری کو اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور کردیا کہ اس ملک کے بحران سے نکلنے کا واحد راستہ صرف سیاسی ہے- حقیققت یہ ہے کہ یمن کے خلاف نہ جنگ سودمند واقع ہوئی جیسا کہ سعودی حکام نے کہا تھا کہ وہ تین ہفتے میں کامیابی حاصل کرلیں گے اور نہ ہی ویسا ہوا کہ جو متحدہ عرب امارات نے حال ہی میں وعدہ دیا تھا کہ الحدیدہ پر قبضہ ہوجائے گا- اس بنا پر متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب اب اس کوشش میں ہیں کہ جنگ یمن میں اپنی شکست اور ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے سفارتی مذاکرات کے ذریعے آبرو مندانہ طریقے سے جنگ یمن کو ختم کردیں- اسی سلسلے میں سعودی اتحاد اور اس کا اصلی حامی یعنی امریکہ کی کوشش ہے کہ جن اہداف و مقاصد کو وہ جنگ کے ذریعے حاصل نہیں کرسکے ہیں، اسے مذاکرات کے ذریعے حاصل کریں۔ لیکن سوئیڈن امن مذاکرات کے دوران انصاراللہ کو حاصل ہونے والی برتری کے پیش نظر، جارح سعودی اتحاد اس میں بھی ناکام رہا- سوئیڈن امن مذاکرات کا نتیجہ درحقیقت تحریک انصاراللہ کے اس برحق نقطہ نگاہ  پر تاکید ہے کہ جس میں ہمیشہ اس امر پر تاکید کی گئی ہے کہ یمن کا بحران سیاسی راہ حل کے سوا اور کچھ نہیں ہے- یہ کامیابی انصاراللہ کے لئے ہے اور اس درمیان الحدیدہ کا مسئلہ سب سے اہم مسئلہ ہے اور سوئیڈن معاہدے کے بعد جارح ملکوں پر رائے عامہ کا مزید دباؤ بڑھے گا تاکہ وہ صوبہ الحدیدہ میں جنگ بندی پر عمل کریں اور وہاں انسان دوستانہ امداد پہنچانے پر رضامندی ظاہر کریں اور یہ مسئلہ یمن کے محاصرے کی تکمیل میں سعودی اتحاد کے ناکام ہونے کی علامت ہے-

واضح رہے کہ سوئیڈن امن مذاکرات کے اختتام پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوترش نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ بحران یمن کے حل کے حصول تک امن مذاکرات کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے- انھوں نے کہا کہ ان مذاکرات میں اہم نتائج حاصل ہوئے اور یمن کے صوبے تعز میں انسان دوستانہ امداد ارسال اور سہولیات فراہم کئے جانے سے اتفاق کیا گیا۔ گوترش نے کہا کہ یمن کے تقریبا دو کروڑ لوگوں کو خوراک کی اشد ضرورت ہے۔انھوں نے اسی طرح الحدیدہ بندرگاہ کے بارے میں اتفاق رائے ہونے اور پورے صوبے میں فائربندی کا اعلان کئے جانے کی خبر دی۔ گوترش نے کہا کہ مذاکرات کا اگلا دور جنوری میں ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ یمن میں قیام امن کے لئے مکمل مفاہمت کی ضرورت ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی نے بھی اقوام متحدہ کی نگرانی میں یمنی گروہوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے مثبت نتائج کا خیرمقدم کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ یمنی عوام کے لئے امدادی سامان کی فوری ترسیل آسان ہوجائے گی ۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ یمنی فریقین خوش اسلوبی کے ساتھ مذاکرات کے سلسلے کو جاری رکھیں گے تا کہ باہمی اتفاق رائے سے ایک حتمی معاہدے کا حصول ممکن ہو سکے۔. بہرام قاسمی نے کہا کہ ایران علاقائی بحرانوں سے متعلق اپنا تعمیری کردار ادا کرتا رہے گا اور ہم نے اس حوالے سے سویڈن میں یمنی گروہوں کے درمیان مذاکرات کروانے کے لئے بھی اپنا کردار ادا کیا۔

 سوئیڈن امن مذکرات میں انصاراللہ کی ایک اور کامیابی یہ تھی کہ اقوام متحدہ اور حتی یمن کی مستعفی حکومت کے صدر منصور ہادی کی حکومت نے تحریک انصاراللہ کو مذاکرات کے ایک فریق کی حیثیت سے تسلیم کیا جس کے معنی یہ ہیں کہ انصاراللہ کے وجود کو قانونی حیثیت حاصل ہے اور اس کی مزاحمت بھی قانونی ہے اور یہ وہی چیز ہے کہ جس کا ابھی تک سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک منکر تھے اور اسے قبول کرنے سے کنارہ کشی کرتے تھے- 

عالمی مسائل کے ماہر اور محقق سید ہادی افقہی یمن کی تحریک انصاراللہ کے لئے سوئیڈن میں یمنی گروہوں کے درمیان طے پانے سمجھوتے کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ سمجھوتہ، تحریک انصاراللہ کے لئے ایک سیاسی کامیابی ہے۔ کیوں کہ اس سے قبل تک سعودی حکام اور ان کے ایجنٹ یہ کہتے تھے کہ اس تحریک کے افراد باغی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ لیکن اس وقت کہ جب اقوام متحدہ جیسا عالمی ادارہ ، یمن کی تحریک انصاراللہ کو مذاکرات کی دعوت دے رہا ہے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس نے یمن کے ایک وسیع حصے کے عوام کی نمائندگی کرنے والی تحریک کو سرکاری طور پر تسلیم کرلیا ہے کہ جس کے زیر انتظام اس ملک کے اسٹریٹیجک علاقے ہیں-

یمن کے امن مذاکرات میں اس ملک کے عوام کے لئے تحریک انصاراللہ کی ایک اور کامیابی کے نتائج میں سے یہ ہے کہ سعودی اتحاد، ایک مہینے تک امریکہ اور مغرب کی حمایت اور تمام تر فوجی طاقت استعمال کرنے کے باوجود الحدیدہ شہر پر قبضہ نہیں کرسکا اور آخرکار مذاکرات پر مجبور ہوا- اور سعودی اتحاد کی منشا کے برخلاف، صنعا ایئرپورٹ ابھی بھی بدستور انصاراللہ اور عوامی فورسیز اور یمن کی قانونی حکومت کے ہاتھ میں ہے اور اس طرح سے سوئیڈن مذاکرات میں سعودی عرب اور اس کے ایجنٹوں کی یہ شرط بھی پوری نہیں ہوئی کہ صنعا ایئرپورٹ ان کے اختیار میں دیا جائے، اور اس مسئلے میں بھی سعودی اتحاد کو ہزیمت اٹھانی پڑی ہے- یمن میں رونما ہونے والی تبدیلیاں، جارح سعودی اتحاد کی، مزید سیاسی اور فوجی ناکامیوں کی غماز ہیں اور سوئیڈن امن مذاکرات کے بعد یمن میں سعودی اتحاد کے حملوں میں شدت بھی اسی کا نتیجہ ہے-   

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

          

ٹیگس