Dec ۲۶, ۲۰۱۸ ۱۵:۴۱ Asia/Tehran
  • افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی پر اصرار، شکست خوردہ تجربے کی تکرار

امریکہ نے گیارہ ستمبر 2001 کے حملوں کا انتقام لینے اور القاعدہ اور طالبان سے جنگ کے بہانے افغانستان پرحملہ کرکے اس ملک پر قبضہ کرلیا تھا-

 اس کے باوجود، مدتوں گذرجانے کے بعد بھی افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی موجودگی بدستور اس ملک کی سیکورٹی کے لئے ایک مشکل بنی ہوئی ہے اور اس صورتحال کے بہتر ہونے کے کوئی آثار بھی نظر نہیں آرہے ہیں- تقریبا سولہ ہزار امریکی فوجی اس وقت افغانستان میں تعینات ہیں- شام میں امریکی پالیسیوں کے ناکام ہو جانے کے بعد صدر ٹرمپ نے گذشتہ بدھ کو اچانک شام سے اپنی فوج واپس بلانے کا اعلان کر دیا- ٹرمپ نے اپنے اس فیصلے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ امریکی فوج داعش کو شکست دینےکے لئے شام میں داخل ہوئی تھی اور اب داعش کو شکست دی جا چکی ہے-

شام سے امریکی فوج کے نکل جانے کے ٹرمپ کے فیصلے کے اعلان کے بعد ٹرمپ حکومت کے بعض حکام کے ذریعے افغانستان سے بھی امریکہ کے سات ہزار فوجیوں کے نکالے جانے کا اعلان کیا گیا کہ جس پر افغان حکام نے اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے- اچانک منظر عام پر آنے والی یہ خبر، ایک ایسے وقت کہ جب امریکہ اور افغانستان کے سینئر حکام اس جنگ زدہ ملک میں امن مذاکرات دوبارہ شروع کئے جانے کی کوششیں کر رہے تھے، تیزی سے کابل میں سیاسی حکام اور سفارتی حلقوں میں پھیل گئی- 

اس مسئلے پر ردعمل میں امریکہ کے چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف، جنرل جوزف ڈنفورڈ نے بگرام ایئربیس میں کہا کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کا انخلا افواہ ہے اور ان فوجیوں کا مشن ماضی کی مانند جاری رہے گا- جنرل آسٹین اسکاٹ میلر Austin Scott Miller نے بھی نیٹو کی ٹھوس حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ابھی انہیں افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلاء پر مبنی کوئی فرمان موصول نہیں ہے- ان حکام کے انکار کے باوجود ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ ٹرمپ اپنی خارجہ پالیسی یعنی علاقائی ذمہ داریوں کو کم کرنے کے دائرے میں فوجیوں کی تعداد میں کمی کرنے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں-

امریکی وزیرجنگ جیمز میٹس نے جو ٹرمپ انتظامیہ کو مستحکم بنانے میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں شام اور افغانستان سے فوجیوں کو واپس بلانے کے ٹرمپ کے فیصلے پرناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفا دے دیا- میٹس نے کوشش کی کہ وہ امریکی صدر کو اس بات پر مطمئن کریں کہ وہ شام اور افغانستان میں فوجیوں کو رہنے دیں اور ان کو نہ نکالیں تاہم جب ان کو منفی جواب ملا تو انہوں نے اپنا استعفی پیش کردیا- میٹس نے تقریبا تین ہفتہ قبل افغانستان میں امریکی فوجیوں کے باقی رہنے پر تاکید کی تھی- 

جیمز میٹس اس بات سے بھی شدید طور پرناراض ہیں کہ صدر ٹرمپ نے اس فیصلے کی انہیں کوئی اطلاع تک نہیں دی- میٹس نے  استعفے نامے میں صدر ٹرمپ کے ساتھ خارجہ پالیسی کےمیدان میں اختلافات کو صراحت کے ساتھ بیان کردیا ہے- امریکا کے مستعفی وزیرجنگ نے پٹناگون میں اپنی مدت کے آخری ایام میں شام سے امریکی فوجیوں کے نکلنے کے حکمنامے پر دستخط کر دیئے تاہم پنٹاگون نے اس سلسلے میں کوئی تفصیلی بیان جاری نہیں کیا کہ امریکی فوجی شام سے کب اور کس طرح سے نکلیں گے-

علاقے کے سیاسی اور دفاعی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکی فوج کو گذشتہ برس ہی نکلنا تھا لیکن آل سعود حکومت نے شام میں تعینات امریکی فوج کے اخراجات کے لئے چار ارب ڈالر دے کر ان کے  انخلا کے عمل کو روک دیا تھا- علاقے کے سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ صیہونی حکومت اور آل سعود ٹرمپ کے اس فیصلے سے سب سے زیادہ ناراض ہیں- ان مبصرین کا کہنا ہے کہ شام کے مسائل میں سعودی عرب کے بعد سب سے زیادہ دھچکا اسرائیل کو لگا ہے کیونکہ شام کا بحران در اصل اسرائیل مخالف استقامتی محاذ کو نابود کرنے اورصیہونی حکومت کو سیکورٹی فراہم کرنےکے لئے پیدا کیا گیا تھا لیکن دہشت گردوں کی شکست اور شام سے امریکی فوج کے نکل جانے کے بعد یہ منصوبہ ناکام ہو گیا-

درحقیقت افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی نہ صرف اس ملک میں امن کے قیام میں مددگار ثابت نہیں ہوئی ہے بلکہ افغانستان کے سیکورٹی مسائل، ناقابل حل مسائل کے طور پر باقی ہیں- افغانستان پر امریکی قبضے کے سترہ سال پورے ہونے پر ایک سروے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اکثر افغان شہریوں کا کہنا ہے کہ امریکہ افغانستان میں سب سے زیادہ ناکام رہا ہے-بہرصورت افغان عوام بدستور ان حالات کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں کہ جو ملکی اور غیر ملکی انتہا پسند اور تشدد پسند عناصر کے تعاون سے پیدا کئے گئے ہیں اور اس وقت بھی جاری ہیں۔ جبکہ اگر گروہ طالبان افغان امن کے عمل میں شمولیت کے لئے، مختلف حلقوں کی درخواستوں کو قبول کرلے تو اس سے نہ صرف دہشت گردوں سے مقابلے کے لئے قومی اتحاد کو تقویت حاصل ہوگی بلکہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کے باقی رہنے کا بہانہ بھی نہیں رہے گا۔

ٹیگس