ایران کے میزائل پروگرام کو محدود کرنے کا خواب، کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوگا
ایران کا فوجی پروگرام، منجملہ بیلسٹیک میزائلوں میں توسیع کا عمل، صرف قانونی اور جائز دفاع کے لئے ہے- یہ میزائل ایٹمی ہتھیار اٹھانے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں، اور نہ ہی اس مقصد کے لئے بنائے گئے ہیں- اس کے باوجود امریکہ اور بعض دیگر ممالک کی یہ کوشش ہے کہ ایرانو فوبیا کے ذریعے، ایران کے میزائل پروگرام کے خلاف محاذ قائم کریں-
اسی پالیسی کے تناظر میں فرانسیسی وزیر خارجہ " ژان ایو لودریان " نے ایران کے میزائل پروگرام کے خلاف بے بنیاد دعووں کی تکرار کرتے ہوئے ایران کے بیلسٹیک میزائل بنائے جانے پر روک لگانے کا مطالبہ کیا ہے-
ایران کی وزرات خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی نے لودریان کے اس بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کے مزائیل پروگرام ، اسلامی جمہوریہ ایران کی قومی سلامتی کے ضامن ہیں کہ جو دفاعی حکمت عملی پر استوار ہیں- ایران کی وزارت خارجہ نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے میزائل، موجودہ خطرات کا دقت سے جائزہ لیتے ہوئے تیار کئے گئے ہیں اور جہاں بھی اور جب بھی ضرورت ہوگی ہم اسے مزید مضبوط استحکام عطا کریں گے- فرانس کے وزیر خارجہ کے دعوے کے برخلاف، ایران کے میزائل پروگرام کی اساس اور بنیاد غیر روایتی اہداف و مقاصد کے لئے نہیں ہے اور ایران کی سائنسی و دفاعی صلاحیتوں کو مستحکم کیا جانا، قرارداد بائیس اکتیس سے کوئی منافات بھی نہیں رکھتا ہے-
اس قرارداد کے بارے میں دونکتہ بیان کیا جا سکتا ہے اول تو یہ کہ اس قرارداد میں، اس سے قبل کی قرارداد 1929 کے برخلاف، ایران کو میزائل پروگرام اور اس کے تجربات نہ کرنے کا پابند نہیں بنایا گیا ہے- اور دوسرا نکتہ یہ ہے کہ قرارداد بائیس اکتیس میں ایران سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ایسے بیلسٹک میزائل نہ بنائے جو ایٹمی ہتھیار اٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہوں- امریکی تجزیہ نگار گرث پورٹر نے الجزیرہ نیوز چینل کے ساتھ انٹرویو میں ایران کے توسط سے ایٹمی ہتھیار نہ بنائے جانے کی حکمت عملی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات واضح ہے کہ ایران بیلسٹک میزائلوں سے ایک دفاعی ہتھیار کے طور پر استفادہ کر رہا ہے- یہ ایسی حالت میں ہے کہ ایران کے خلاف ممکنہ حملے کے لئے اسرائیل اور سعودی عرب کے پاس بیلسٹیک میزائل موجود ہیں، اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایران کے بیلسٹیک میزائل یقینی طور پر دفاعی اہمیت کے حامل ہیں-
بعض یورپی ملکوں کی جانب سے اس دعوے کی تکرار سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا مقصد امریکہ کے مواقف سے ہم آہنگ ہوکر، ایران کے میزائل پروگرام کو علاقے کے لئے خطرہ قرار دینا ہے- جبکہ اس موقف کا اپنایا جانا ، ایک متضاد اور دھوکہ دھی کی پالیسی ہے- اس میں شک نہیں ہے کہ ان پروپگنڈوں کا مقصد ایران کی دفاعی طاقت کو کمزور کرنا ہے - کیوں کہ ایران کی میزائلی صلاحیت و توانائی، ملک کی سلامتی کے لئے انتہائی ضروری اور لازمی امرہے- یہ ایسی حالت میں ہے کہ یورپی ممالک خاص طور پر فرانس نے اور امریکہ نے علاقے کے ملکوں کو ہتھیار فروخت کرکے علاقے کو ہتھیاروں اور جدید ترین میزائلوں کے انبار میں تبدیل کردیا ہے- اس سلسلے میں فرانس کا موقف قابل غور ہے۔ اپنے داخلی مسائل کے سبب فرانس جو امریکہ کی ہاں میں ہاں ملا رہا ہے تو اس کے بہت سے محرکات ہوسکتے ہیں اور اس وقت ایک محرک، عرب ملکوں کو بے تحاشا ہتھیاروں کا فروخت کرنا ہے اور یہی وہ عوامل ہیں جو اس قسم کے مواقف اپنانے میں موثر رہے ہیں- البتہ فرانس اس وہم و گمان میں ہے کہ وہ ایٹمی معاہدے کے ساتھ ساتھ اپنے علاقائی اتحادیوں نیز امریکہ کے ساتھ بھی تعلقات بنائے رکھ سکتا ہے- لیکن اس کا یہ اندازہ بالکل غلط اور یکطرفہ ہے-
رہبر انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے بانی انقلاب اسلامی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی انتیسویں برسی کے موقع پر فرمایا تھا کہ ایران کے خلاف عراق کی مسلط کردہ آٹھ سالہ جنگ کے دوران اس وقت چونکہ ایران کے پاس دفاعی ہتھیار اور میزائل نہیں تھے تو سرحدی شہروں سے لے کر تہران تک، دن و رات میزائل حملے ہور ہے تھے۔ لیکن اس وقت جوان ماہرین کی ہمت سے ایران علاقے میں میزائیلی طاقت کے اعتبار سے پہلے نمبر پر ہے اور دشمن کو معلوم ہے کہ اگر وہ ایک میزائل مارے گا تو جواب میں دس کھائے گا- رہبر انقلاب اسلامی نے بعض یورپی حکام کی باتوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسا لگتا ہے کہ یورپی حکومتیں یہ توقع رکھتی ہیں کہ ایرانی قوم پابندیوں کو بھی برداشت کرے اور ایٹمی سرگرمیوں سے بھی ہاتھ کھینچ لے کہ جو ایران کے مستقبل کے لئے ایک حتمی اور قطعی ضرورت ہے اور ساتھ ہی ایران پر جو پابندیاں عائد کی گئی ہیں وہ بھی جاری رہیں، لیکن ان کو یہ بات اچھی سے طرح سے معلوم ہونی چاہئے کہ ان کا یہ خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوگا-