بن سلمان کے دورۂ چین کے اہداف
سعودی ولیعہد بن سلمان نے پاکستان و ہندوستان کے دورے کے بعد چین کا دو روزہ دورہ کیا ہے اور اس ملک کے حکام سے ملاقات اور گفتگو کی ہے-
سعودی ولیعہد بن سلمان کا دورۂ چین، اس ملک کا ان کا پہلا سرکاری دورہ ہے- اس سے قبل ملک سلمان نے چین کا دورہ کیا تھا- روسی یونیورسٹی کے پروفیسر گریگولی کاساچ کہتے ہیں کہ اس امر کے پیش نظر کہ سعودی بادشاہ نے بھی 2017 میں چین کا دورہ کیا تھا، بن سلمان کا موجودہ دورۂ چین بھی اس امر کا آئینہ دار ہے کہ سعودی عرب کی خارجہ پالیسی مشرق کی جانب مائل ہے-
مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ سعودی ولیعہد کے دورۂ چین کے اقتصادی اور سیاسی اہداف رہے ہیں- اقتصادی لحاظ سے چین ایک اقتصادی طاقت ہے اور عالمی معیشت کے میدان میں موثر کردار کا حامل ہے- درحقیقت اگرچہ چین کو سلامتی کونسل میں ویٹو کا حق حاصل ہے اور دنیا کی فوجی طاقتوں میں سے ایک ہے لیکن عالمی نظام میں بیجنگ کا کردار ہر چیز سے زیادہ اس کی اقتصادی طاقت سے وابستہ ہے- بن سلمان کے دورۂ چین میں اقتصادی اہداف کو زیادہ اہمیت حاصل تھی - سعودی عرب دنیا میں سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والا ملک ہے اور چین سعودی تیل کا سب سے بڑا صارف ملک ہے- اس دورے میں آرامکو کمپنی کے سینئر ڈائریکٹرز بھی ان کے ہمراہ تھے۔ سعودی ولیعہد نے اس دورے میں جہاں یہ کوشش کی ہے کہ بیجنگ کےلئے زیادہ سے زیادہ تیل کی فروخت کی زمین ہموار کریں وہیں چین کی ریفائنری کے شعبے میں بھی سرمایہ کاری کو مدنظر قرار دیا ہے-
چین اور ہندوستان کی بہ نسبت پاکستان کے بارے میں بن سلمان کا اقتصادی نقطہ نگاہ بہت مختلف ہے اس لئے بن سلمان کا اقتصادی نقطہ نگاہ پاکستان کے بارے میں یہ ہے کہ اسلام آباد کی مدد کی جائے اور اثر و رسوخ بڑھایا جائے لیکن چین کے بارے میں اقتصادی نقطہ نگاہ اور کسی حد تک ہندوستان کے بارے میں بھی یہ ہے کہ ان ملکوں میں سرمایہ کاری کرے اور سیاسی حمایت حاصل کرے-
سیاسی لحاظ سے سعودی ولیعہد کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ چین ان ملکوں میں سے ہے کہ جس کے ایران کے ساتھ اچھے اقتصادی اور سیاسی تعلقات قائم ہیں۔ اگرچہ بن سلمان کے دورۂ چین میں ایران کے خلاف کھل کر کوئی بات نہیں کہی گئی لیکن بن سلمان کے اس دورے میں ایران مخالف نقطہ نگاہ ضرور پایا جاتا تھا- یہ ایسے میں ہے کہ چینی حکام نے سعودی ولیعہد کے اس دورے سے قبل ہی بالواسطہ طور پر یہ پیغام بن سلمان کو دے دیا تھا کہ وہ چین میں ایران مخالف اہداف کے درپے نہیں ہوں گے- کیوں کہ تہران کے ساتھ بیجنگ کے روابط ، اسٹریٹیجک سطح پر ہیں- اسی سلسلے میں چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے گذشتہ منگل کو یعنی بن سلمان کے دورۂ بیجنگ سے دو روز قبل اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ کے ساتھ ملاقات میں کہا تھا کہ میں چاہتا ہوں کہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے قدیمی دوست ایران کے ساتھ تعلقات کو گہرا کروں اور دونوں ملکوں کے درمیان اسٹریٹیجک اعتماد کو مضبوط کروں اور یہ اطمئنان دلاؤں کہ ہمارے دوطرفہ، جامع اور اسٹریٹیجک تعاون میں ایک نئی پیشرفت حاصل ہوئی ہے-
لیکن اختتام پر یہ نکتہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ بن سلمان کے ایشیائی ملکوں کے ان دوروں کا کامیاب یا ناکام ہونا، مغرب کے ردعمل پر منحصر ہے کیوں کہ دیکھنا یہ ہے کہ کیا مغرب خاص طور پر یورپی ممالک چین اور ہندوستان سے سعودی عرب کو نزدیک ہونے سے روکنے کے مقصد سے، سعودی ولیعہد پر اپنے حالیہ دباؤ میں کمی لائیں گے یا نہیں -