ونزوئیلا کے سیاسی بحران کے بین الاقوامی پہلو
ونزوئیلا میں سیاسی بحران دس جنوری دوہزار انیس میں اس وقت شروع ہوا جب نیکلس مادورو دوسری بار مخالفین کی جانب سے بائیکاٹ کے باوجود انتخابات میں کامیاب ہوئے اور اس ملک کے صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا - کشیدگی اس وقت عروج پر پہنچ گئی جب تیئیس جنوری کو مخالفین کے سربراہ خوان گوایدو خودساختہ صدر بن گئے اور امریکہ اور اکثر یورپی و لاطینی امریکہ کے ممالک نے ان کی حمایت کا اعلان کردیا-
اس کے مقابلے میں روس ، ایران، چین ، ترکی ، بولیویہ اور میکسیکو جیسے بہت سے ممالک نے گوایدو کے اس اقدام کی مذمت کی اور نیکلس مادورو کی حمایت کر رہے ہیں-
امریکی وزیرخارجہ مائک پمپئو نے ابھی حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ ان کا ملک مادورو کی حکومت کے خلاف ایک عالمی اتحاد تشکیل دے گا تاکہ انھیں اقتدار سے علیحدہ ہونے پر مجبور کردے-
ان بیانات سے اس ڈرامے کا پتہ چلتا ہے جو امریکہ اور اس کے یورپی و عرب اتحادیوں نے دوہزارگیارہ میں شام کے بحران کے بعد اس ملک میں شروع کیا- شام میں بحران کھڑا کرنے کا مقصد بشار اسد کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنا تھا تاہم واشنگٹن اور اس کے اتحادیوں کو منھ کی کھانی پڑی اور ان کی تمام سازشیں نقش بر آب ہوگئیں- شام کی کامیابی کے پیش نظر ونزوئیلا کے اعلی حکام بھی امریکہ کا مقابلہ کرنے کے لئے شام کے تجربے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں-
ونزوئیلا کے وزیرخارجہ خورخہ آریزا نے دمشق یونیورسٹی میں اپنے خطاب میں اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ ان کا ملک شام کے حالیہ آٹھ سالہ سیناریو کی طرح ہی سازشوں کا شکار ہے کہا کہ ونزوئیلا ، امپریالیزم کے سامنے استقامت میں شام کی اسٹریٹیجی سے استفادہ کرے گا- ونزوئیلا کے وزیرخارجہ نے اپنے ملک پر تسلط کی کوششوں کی ناکامی پر امریکہ کے اشتعال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ونزوئیلا کے عوام کے محاصرے اور ان کی استقامت کو ناکام بنانے کے لئے واشنگٹن کے یکطرفہ اقدامات اور پابندیوں سے پتہ چلتا ہے کہ روس چین ایران ، شام صربیا اور بیلاروس جیسے ممالک کے عوام اور حکومتوں کے موقف سے ونزوئیلا کی استقامت کی بنیادیں مضبوط ہوں گی-
ونزوئیلا کے وزیرخارجہ کا اشارہ ، اس ملک کے بحران کے بین الاقوامی رخ اختیار کرنے اور ونزوئیلا حکومت کے حامی اور مخالف ممالک کے درمیان صف بندی کی جانب ہے اس بحران کے آغاز میں واشنگٹن نے سمجھا تھا کہ وہ ماضی میں خاص طور سے سرد جنگ کے دوران کی طرح طاقت کے بل پر ونزوئیلا کی بائیں بازو کی مادورو حکومت کو سرنگوں کردے گا لیکن دوسری طاقتوں خاص طور سے روس اور چین کی سخت مخالفت اور ان کی جانب سے مادورو کی حمایت میں اپنے فوجیوں کو ونزوئیلا بھیج کر امریکہ کو یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اپنے مفادات کے حصول کے لئے یکطرفہ اقدامات اورکاروائیوں کا دور ختم ہوچکا ہے-
روس اور چین نے اپنے فوجی ونزوئیلا بھیج کر ٹرمپ حکومت کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ ونزوئیلا میں امریکی سازشوں کا مقابلہ کریں گے اس کی وجہ سے امریکی حکومت کا غصہ ساتویں آسمان پر ہے- اس سلسلے میں امریکی وزیرخارجہ مائک پمپئو نے جمعرات کو نیٹو کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے اختتام پراعلان کیا ہے کہ اس اجلاس میں ونزوئیلا میں روسی فوجیوں کی موجودگی پر غور کیا گیا اور امریکہ نے ایک بار پھر ونزوئیلا سے روسی فوجیوں کے باہر نکلنے کی ضرورت کو دہرایا-
پمپئو نے کہا کہ ہم نے یوکرین سمیت دینا بھر میں روس کے کاموں کے پیش نظر شام ، ونزوئیلا اور بحرآزوف میں روس کی شرارت کے بارے میں گفتگو کی - ہم سب کا جواب دینے کے لئے ہر ممکن اقدام کریں گے اور ونزوئیلا کے سلسلے میں بھی امریکہ تیار ہے-
پمپؤ کے بیانات سے ونزوئیلا کے بحران کے سلسلے میں ٹرمپ حکومت کے انفعالی موقف اور روس اور چین کی جانب سے لاطینی امریکہ کے اس ملک کے صدر اور حکومت کی حمایت پر امریکیوں کے شدید غم و غصے کا پتہ چلتا ہے-
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان گنگ شوانگ نے جمعرات کو بیجنگ اور ماسکو سے اپنے فوجیوں کو ونزوئیلا سے باہر نکالنے کی واشنگٹن کی درخواست پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے امریکہ کو خبردار کیا اور کہا کہ لاطینی امریکہ کسی خاص ملک کی کالونی نہیں ہے-
ماسکو اور بیجنگ کا خیال ہے کہ ونزوئیلا کے سلسلے میں امریکہ کے موجودہ اقدامات کیوبا اور نیکارا گوئے جیسے لاطینی امریکہ کے دیگر بائیں بازو کے ممالک کو سزا دینے اور ان سے نمٹنے کے عمل کا آغاز ہے اور اسی بنا پر عالمی برادری کو اس کے مقابلے میں سختی سے ڈٹ جانا چاہئے-