امریکی بدعہدی اور ایران
ایٹمی سمجھوتہ عالمی امن و سلامتی کے تحفظ کے لئے ایک نہایت اہم سمجھوتہ شمار ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود امریکہ ، اسے ناکام بنانے کے لئے آٹھ مئی دوہزار اٹھارہ کو اس سے باہر نکل گیا-
واشنگٹن کا ایٹمی سمجھوتہ مخالف رویہ گروپ چار جمع ایک یعنی روس، چین اور یورپی ٹرائیکا اور یورپی یونین کے لئے قابل قبول نہیں ہے- ٹرمپ حکومت نے اگست اور نومبر دوہزار اٹھارہ میں دو مرحلوں میں ایران کے خلاف دوبارہ ایٹمی پابندیاں نافذ کردیں اور اب بھی بے انتہا پابندیوں کا د دباؤ جاری رکھے ہوئے ہے- اس وقت جب ایٹمی سمجھوتے سے امریکہ کو باہر نکلے ہوئے ایک سال مکمل ہوچکے ہیں ، دنیا ٹرمپ حکومت کے اس غیرقانونی اقدام کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے- ایٹمی سمجھوتے سے امریکہ کے باہر نکلنے کے ٹرمپ حکومت کے اقدام سے نہ صرف بین الاقوامی معاہدے کی حیثیت مشکوک ہوگئی ہے بلکہ وہ علاقائی و عالمی امن و سلامتی پر منفی اثرات مرتب کرسکتے ہیں-
ایٹمی سمجھوتے سے باہر نکلنے کے لئے ٹرمپ کا سب سے بڑا بہانہ ، ایٹمی سمجھوتے کے تناظر میں ایران کی جانب سے معاہدے کی عدم پابندی ، امریکہ کو اس کا فائدہ نہ پہنچنا اور اس کے مدنظر اہداف پورے نہ ہونا تھا جبکہ ایٹمی سمجھوتے کے دیگر فریق واشنگٹن کے برخلاف نظریہ رکھتے ہیں-
ٹرمپ حکومت نے با رہا ایران کی جانب سے معاہدے پر عمل درآمد نہ کرنے کا دعوی کیا ہے حتی تہران پر ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش کا الزام تک لگایا ہے تاہم ایٹمی انرجی کی عالمی ایجنسی جو ایٹمی سمجھوتے پر نگرانی کی ذمہ دار ہے، ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں ٹرمپ کے جھوٹے دعؤوں کو قبول نہیں کرتی اور اب تک اپنی چودہ رپورٹوں میں ایٹمی سمجھوتے کے تناظر میں اپنے ایٹمی معاہدے کی تصدیق کر چکی ہے-
ایٹمی انرجی کی عالمی ایجنسی کے سربراہ یوکیا آمانو نے اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس سلسلے میں اپنے تازہ ترین موقف میں ایک بار پھر ایران کی جانب سے ایٹمی سمجھوتے پر مکمل عمل درآمد کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ سن دوہزار نو کے بعد سے ایران کے ایٹمی پروگرام میں کوئی انحراف نہیں دیکھا گیا ہے- بظاہر امریکہ کو ایران کی ایٹمی سرگرمیوں کے بارے میں آئی اے ای اے کی رپورٹوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتا اور صرف اس سلسلے میں صیہونی حکومت کے جھوٹے دعؤوں پر توجہ دیتا ہے-
دوسری جانب ٹرمپ کو ایٹمی سمجھوتے سے کہیں زیادہ کی توقع ہے- امریکی وزیرخارجہ نے مئی دوہزار اٹھارہ میں ایران کے سامنے بارہ شرطیں پیش کی تھیں جن پر عمل درآمد درحقیقت امریکہ کے سامنے ایران کے بلاقید و شرط گھٹنے ٹیکنے کے مترادف ہے - ان شرطوں میں ایٹمی پروگرام کو پوری طرح بند کرنا، میزائلی پروگرام کو روک دینا، ایران کا علاقائی اثر و نفوذ ختم کرنا اور ایران سے طاقت کے تمام علاقائی و قومی عوامل کو چھین لینا شامل ہے-
ایران کی جانب سے ایٹمی سمجھوتے پرعمل درآمد نہ کرنے کا جھوٹا دعوی اور آخرکار اس اہم سمجھوتے سے باہر نکل جانا درحقیقت ایران کے خلاف دباؤ بڑھانے کا ایک بہانہ ہے-
امریکی وزارت خارجہ میں ایران ایکشن گروپ کے سربراہ برایان ہوک کا کہنا ہے کہ واشنگٹن اس وجہ سے ایٹمی سمجھوتے سے باہر نکلا ہے تاکہ تہران کے خلاف دباؤ بڑھا سکے اور ایران کے خلاف بے انتہا دباؤ کو جاری رکھ سکے-
ایٹمی سمجھوتے سے امریکہ کے غیرقانونی طور پر باہر نکلنے اور امریکی پابندیوں کے منفی اثرات کم کرنے کے بارے میں یورپ کے وعدے پورے نہ ہونے پر ردعمل میں ایران نے ایٹمی سمجھوتے سے امریکہ کے باہر نکلنے کے ایک سال پورے ہونے پر اعلان کیا کہ وہ ایٹمی سمجھوتے کے تناظر میں بعض معاہدوں پرعمل درآمد کو روک دے گا-
اس مسئلے پر امریکہ نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے- امریکی وزیرخارجہ نے ایٹمی سمجھوتے کے سلسلے میں ایران کے رویے میں تبدیلی کے بارے میں کہا کہ : میں نے بعض رپورٹوں کو پڑھا ہے جن سے پتہ چلتا ہے کہ وہ تبدیلی لائیں گے - یہ مسئلہ زیرو ایک کی شکل میں ہے- آپ سمجھوتے کے پابند ہیں یا نہیں ہیں-
پمپئو کے موقف کے برخلاف ایران نے فی الحال صرف بعض وعدوں پر عمل درآمد کو روک دیا ہے اور اس طرح گروپ چار جمع ایک کے لئے اپنی سنجیدگی کا اظہار کیا ہے-
ایران کے سلسلے میں امریکہ کا رویہ صرف دھمکی اور زور زبردستی پراستوار ہے- اس کے باوجود ایران ، گذشتہ چالیس برسوں کے دوران امریکی اقدامات و پالیسیوں کے مقابلے میں استقامت کا راستہ اختیار کئے ہوئے ہے اوراس نے عملی طور پرواشنگٹن کی دھمکیوں اور سازشوں کو ناکام بنایا ہے- اس کے ساتھ ہی ایران نے ثابت کیا ہے کہ وہ پوری کامیابی سے امریکی پابندیوں پرقابو پانے اور ٹرمپ حکومت کی دشمنانہ پالیسیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہے-