ایران کے خلاف فوجی حملے کی دھمکی سے امریکہ کی پسپائی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چاہے وہ انتخابی مہم کے دوران ہو اور چاہے وائٹ ہاؤس میں داخل ہونے کے بعد کا مرحلہ ہو ، اسلامی جمہوری نظام کو کمزور کرنے یا اسے ختم کرنے پر توجہ مبذول کر رکھی ہے-
اسی لئے واشنگٹن نے زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی پالیسی کے تحت ایران کے خلاف اقتصادی جنگ شروع کر رکھی ہے اور ساتھ ہی گذشتہ چند ہفتوں کے دوران ایران کو فوجی حملےکی دھمکی بھی دی ہے- تاہم ایران کی جانب سے کسی بھی قسم کی جارحیت کا منھ توڑ جواب دینے کی آمادگی کے اعلان اور امریکہ کے اندر اور باہر حتی واشنگٹن کے یورپی اتحادیوں کی جانب سے ایران کے خلاف ٹرمپ کی پالیسی پر وسیع مخالفتیں اس بات کا باعث بنی ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اپنے ماضی کے دعووں سے پسپائی اختیار کر لی ہے-
اسی سلسلے میں امریکی جریدے "ٹائم" نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ ایران کے خلاف حملے کا واشنگٹن کا کوئی ارادہ یا منصوبہ نہیں ہے لکھا ہے کہ پنٹاگون کے فوجی حکام کا خیال ہے کہ اس طرح کے حملوں کے لئے مہینوں قبل سے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے- امریکی جریدے ٹائم نے 18 مئی کو ایک رپورٹ میں لکھا کہ پنٹاگون کے نقطہ نظر سے اسی وقت فوجی پروگرام کے بارے میں حقیقت میں کچھ کہا جا سکتا ہے کہ جب حملے یا جنگ کے لئے کوئی منصوبہ یا پروگرام، ملک کے صدر کو پیش کیا جائے، ورنہ اس سے قبل جو کچھ بھی کہا جائے وہ صرف قیاس آرائی ہے-
ٹائم کے مطابق علاقے میں امریکی فورسیز پر نگرانی اور منصوبہ بندی میں فعال پنٹاگون کے تین فوجی عہدیداروں نے کہا ہے کہ کوئی بھی ایسا قابل عمل یا اس جیسا منصوبہ نہیں ہے کہ خلیج فارس میں بڑے پیمانے پر فوج بھیجی جائے- گذشتہ دو ہفتوں کے دوران ٹرمپ انتظامیہ کے جنگ پسند حکام یعنی امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن اور امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو نے اپنے بیانات میں اس بات کا دعوی کرتے ہوئے کہ ایران اور اس کے ایجنٹ، علاقے میں امریکی فورسیز اور امریکی اتحادیوں کے مفادات پر حملے کا ارادہ رکھتے ہیں ، خبردار کیا ہے کہ واشنگٹن اس کا جواب فوجی حملے سے دے گا-
بولٹن نے یہ بھی دعوی کیا ہے کہ امریکہ ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا لیکن ایرانی فورسیز کی جانب سے کسی بھی قسم کے حملے پر بھرپور ردعمل ظاہر کرنے کے لئے آمادہ ہے- پمپئو نے بھی دس مئی کو ایک بیان میں، ایران پر، دھمکی آمیز اقدامات اور بیانات کا الزام عائد کیا ہے- بولٹن اور پمپئو کا خیال ہے کہ ایران کے خلاف فوجی دھمکی کے ذریعے وہ تہران کو اپنے مطالبات کے سامنے جھکنے پر مجبور کردیں گے-
یہ ایسے میں ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے بارہا کہا ہے کہ امریکہ یا اس کے اتحادی ملکوں کی جانب سے کسی بھی قسم کے فوجی حملے یا جارحیت کا دنداں شکن جواب دیا جائے گا- اس وقت خبروں اور رپورٹوں سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ ٹرمپ نے ایران کے خلاف فوجی دھمکی یا ممکنہ فوجی حملے سے پسپائی اختیار کرلی ہے- اخبار نیوریارک ٹائمز نے بھی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ٹرمپ نے امریکی وزارت دفاع کے انچارج پیٹریک شاناہان سے کہا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتے-
یہ اخبار مزید لکھتا ہے کہ پندرہ مئی بروز بدھ کے اجلاس میں ٹرمپ نے اس مسئلے پر زور دیا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ جنگ کے خواہاں نہیں ہیں- نیویارک ٹائمز نے تین امریکی ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ ٹرمپ اس بات سے خوش نہیں ہیں کہ یہ خیال کیا جائے کہ وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن مغربی ایشیا کے تعلق سے واشنگٹن کی پالیسیوں کے منصوبہ ساز ہیں- اس مسئلے اور علاقے کے بارے میں ٹرمپ کی پالیسیوں سے بولٹن کی ناراضگی اس بات کا باعث بنی ہے کہ ٹرمپ کی آئندہ حکومت میں بولٹن کے موجود رہنے کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہوگئے ہیں- اخبار نیویارک ٹائمز نے ایک رپورٹ میں یہ بھی کہا ہے کہ ٹرمپ ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی اپنی اسٹریٹیجی سے پسپائی اختیار کر رہے ہیں اور انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ایران پر دباؤ کی مہم کے بجائے، دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی ختم کرنے کے مقصد سے سفارتی طریقے اپنائے جائیں-
ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ امریکہ کے سینئر حکام اس وقت ہر وقت سے زیادہ ایران کے ساتھ فوجی ٹکراؤ سے پیدا ہونے والے عظیم نقصان کی بابت واقف ہوگئے ہیں اس لئے ان کی کوشش ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے جنگ پسند ٹولے کے دھمکی آمیز بیانات کی کسی طرح نہ کسی طرح سے توجیہ کریں- ساتھ ہی ایران کا موقف ہمیشہ یہ رہا ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی فوجی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر وقت آمادہ ہے- برطانیہ میں ایران کے سفیر حمید بعیدی نژاد نے کہا ہے کہ اگر امریکہ، اس سے زیادہ غیر ضروری اقدامات یا اشتعال انگیزی کا درپے ہے تو ہم بھی اس ملک کا مقابلہ کرنے کا پختہ عزم کئے ہوئے ہیں- ہم جنگ کا آغاز نہیں کریں گے لیکن اگر جنگ مسلط کی گئی تو پھر ایرانی قوم امریکہ کے مقابلے میں ڈٹ جائے گی اور اپنا دفاع کرے گی-