ایرانی مضبوط سفارت کاری کے سامنے امریکہ کی بےبسی
ٹرمپ حکومت نے اب ایرانی وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف پر بھی پابندی لگا دی ہے۔
امریکہ کی ٹرمپ حکومت اپنی ”زیادہ سے زیادہ دباؤ“ کی پالیسی کے تحت ایران کے خلاف یک طرفہ اور غیر قانونی وسیع بابندیاں لگا رہی ہے اور اب اس نے اپنی مذکورہ پالیسی کے تحت ایرانی وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف پر بھی پابندی لگادی ہے۔
امریکہ کی وزارت خزانہ نے جمعرات کی صبح اسلامی جمہوریۂ ایران کے وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف کا تام بھی ان افراد کی فہرست میں شامل کرلیا جن پر امریکہ نے پابندیاں لگائی ہیں۔ اس سلسلہ میں امریکی وزارت خزانہ کے جاری کردہ بیان میں ایرانی وزیر خارجہ ڈاکٹر جواد ظریف پر پابندی کی وجہ ڈاکٹر ظریف کی طرف سے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کی بلاواسطہ یا بالواسطہ اطاعت بتائی گئی ہے۔ ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے جمعرات کی صبح امریکی حکومت کے اس اقدام کے ردعمل میں اپنے ٹوئیٹ پیج پر امریکی حکام کو مخاطب کرکے لکھا کہ ” شکریہ کہ آپ مجھے اپنے منصوبوں اور مقاصد کے حصول کی راہ میں بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ امریکہ کہتا ہے کہ اس نے مجھ پر پوری دنیا میں ایران کے ̕اصلی ترجمان̒ کی حیثیت سے پابندی لگائی ہے، تو کیا حقیقت اتنی دردناک ہے؟“ ایرانی وزیر خارجہ نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ وہ یا ان کے اہل خانہ ایران سے باہر کوئی بینک بیلینس یا جائیداد نہیں رکھتے کہا ہے کہ ایران ان کی زندگی اور زندگی کا سب سے بڑا فریضہ ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکی پابندیوں کی فہرست میں ان کا نام شامل کرنے کا واحد مقصد شاید تعلقات برقرار کرنے میں ان کی صلاحیت کو محدود کرنا ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ پر پابندی لگانے کا امریکی اقدام پوری طرح سے بین الاقوامی قوانین اور سفارتی اصولوں کے خلاف ہے۔ حکومت امریکہ ڈاکٹر جواد ظریف پر پابندی لگا کر بزعم خود بین الاقوامی اداروں اور مختلف ممالک کے اعلیٰ حکام کے ساتھ ان کی ملاقاتوں اور مختلف ممالک کے ان کے دوروں میں مشکلات کھڑی کرنا چاہتی ہے تاکہ اس طرح ایران کی حق پسندی کی باتیں نہ سُنی جاسکیں اور امریکہ کے غیر انسانی اور غیر قانونی اقدامات بھی سامنے نہ آسکیں۔
دریں اثنا، ایرانی وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف پر پابندی کے خلاف وسیع ردعمل سامنے آیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ حکومت کا یہ اقدام ایران کے مقتدرانہ اور مضبوط موقف کے مقابل، جو ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکہ کے دیگر اعلیٰ عہدیداروں کے اصرار اور درخواست کے باوجود بھی مذاکرات کے لئے تیار نہیں ہوا ہے، امریکہ کی شدید بےبسی کی علامت ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ پر امریکی پابندی کے بعد خبر رساں ایجنسی روئیٹرز نے امریکہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے حوالہ سے، جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا ہے، لکھا ہے کہ ”ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے ساتھ مذاکرات کے خواہش مند ہیں لیکن ان کی حکومت یہ چاہتی ہے کہ اس کے سامنے فیصلہ کرنے والا اصل شخص ہو، ایسا شخص جو با اختیار ہو، تاہم ظریف وہ نہیں ہیں۔“ امریکہ کے اس اعلیٰ عہدیدار کی یہ دلیل بہت سے افراد کی حیرت کا سبب بنی ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے بین الاقوامی امور کے سابق مشیر رابرٹ ہنٹر نے امریکی حکام کے اس دعوے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ، جواد ظریف فیصلہ کرنے والی بااختیار شخصیت نہیں ہیں، کہا ہے کہ ”اگر ٹرمپ حکومت کے مطابق ظریف صاحب کے پاس اختیارات نہیں ہیں تو پھر ان پر پابندی کیوں لگائی ہے؟ یہ بےکار کی بات ہے۔“ در حقیقت، ڈاکٹر محمد جواد ظریف پر امریکی پابندی اسی وجہ لگی ہے کہ امریکی حکام دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات برقرار کرنے اور بین الاقوامی اداروں میں ایران کے حق پسندانہ موقف پیش کرنے میں ظریف کی صلاحیت سے بخوبی واقف ہیں اور انہوں نے ڈاکٹر ظریف پر پابندی لگا کر اس سلسلہ میں ان کی صلاحیت کو بزعم خود شدید طور پر کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔
ادھر بعض امریکی سیاست دانوں کا خیال ہے کہ ڈاکٹر ظریف پر پابندی کا مطلب سفارت کاری کو کمزور کرنا اور ایران کے ساتھ مذاکرات کا امکان ہے۔ امریکہ کی سابق نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمن نے اپنے ٹوئیٹ میں غیرمشروط مذاکرات کے ٹرمپ کے دعوے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”ایرانی وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف پر پابندی کا ٹرمپ حکومت کا فیصلہ سفارت کاری کے لئے مددگار ثابت نہیں ہوگا۔“ علاوہ ازیں، امریکہ کے بعض دیگر سابق اعلیٰ عہدیداروں نے بھی ایرانی وزیر خارجہ پر لگائی گئی پابندی کو خطرناک نتائج کا حامل اقدام قرار دیا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ میں جامع ایٹمی معاہدے پر عمل درآمد کے کوآرڈی نیٹر جاریٹ بلانک نے ڈاکٹر ظریف پر پابندی کے لئے ٹرمپ حکومت کے بعض افراد پر تنقید کرتے ہوئے ان کو احمق، جھوٹا اور خطرناک قرار دیا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ حکومت نے ایرانی وزیر خارجہ پر پابندی لگا کر ایک غیر سنجیدہ اقدام کیا ہے اور اس اقدام کو واشنگٹن کی جارحانہ پالیسی کے سامنے ایران کی تاریخی استقامت کے مقابل امریکہ کی انتہائی بےبسی قرار دیا جا سکتا ہے۔